وکی پیڈیا کے مطابق سندھی زبان کے ممتاز ادیب، ماہرِ سندھی ثقافت، ماہرِ سندھی لوک موسیقی، ادیب، محقق اور ماہر لطیفیات ممتاز مرزا 29 نومبر 1939ء کو حیدر آباد، سندھ میں پیدا ہوئے۔
ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’’شاہ عبداللطیف بھٹائی‘‘ کے مجموعۂ کلام رسالہ کا قدیم ترین نسخہ گنج کے نام سے مرتب کر کے شائع کرنا تھا۔ ان کا اصل نام مرزا توسل حسین تھا۔ ان کا تعلق مرزا قلیچ بیگ، مرزا اجمل بیگ اور مرزا بڈھل بیگ کے ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد مرزا گل حسن احسن کربلائی بھی سندھ کے معروف شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔
ممتاز مرزا نے اپنی علمی زندگی کا آغاز سندھی ادبی بورڈ سے کیا جہاں انہیں ’’سندھی اردو ڈکشنری‘‘، ’’اردو سندھی ڈکشنری‘‘ اور ’’سندھی لوک ادب‘‘ کی تدوین کا کام سونپا گیا۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ رہے۔ عمر کے آخری حصے میں وہ سندھ کے محکمۂ ثقافت کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔
ممتاز مرزا، سندھی زبان کے اعلیٰ پائے کے نثر نگار تھے۔ ان کی تصانیف میں ’’سپریان سندے گالھڑی‘‘، ’’سدا سوئیتا کاپڑی‘‘ اور ’’وساریان نہ وسرن‘‘ شامل ہیں۔
ممتاز مرزا نے سندھ کے ممتاز لوک گلوکار ’’الن فقیر‘‘ اور تھر کی کوئل ’’مائی بھاگی‘‘ سمیت متعدد فنکاروں کو ریڈیو اور ٹیلی وژن میں روشناس کرایا۔
حکومت پاکستان نے ممتاز مرزا کی سندھ کی ثقافت، موسیقی و ادب کے فروغ کے اعتراف کے طور پر 14 اگست 1997ء کوان کی وفات کے بعد انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
ممتاز مرزا 6 جنوری، 1997ء کو کراچی میں پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ حیدرآباد، سندھ میں ٹنڈو آغا کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔