’’مسٹر ڈاؤنی! کیا آپ کو علم نہیں کہ ساڑھے پانچ بجنے پر آپ کو کام بند کرنے کا حق ہے۔‘‘
’’اوہ، ہاں! کیوں نہیں مسٹر ڈیورنٹ، لیکن آپ ابھی تک دفتر میں تھے، تو میں نے سوچا شائد میں آپ کے کچھ کام آسکوں۔‘‘ ڈیورنٹ نے پوچھا، ’’کیا آپ کے پاس پنسل ہے؟‘‘ ڈاؤنی نے سنتے ہی ایک پنسل تراش کر کے ڈیورنٹ کو پیش کیا۔ مسٹر ڈیورنٹ نے شکریہ ادا کرکے شب بخیر کہا۔
عزیزانِ من! ’’ڈاؤنی‘‘ کا ’’مسٹر ڈیورنٹ‘‘ کے آفس میں یہ پہلا دن تھا جس میں ڈاؤنی نے ایک بار پھر ’’چند قدم زیادہ چلنے‘‘ کا عملی مظاہرہ کیا تھا۔ چند قدم زیادہ چلنے ہی کی بدولت ڈاؤنی کو ڈیورنٹ کی طرف سے اس کے آفس میں جاب ملی تھی، جس کی سرگذشت کچھ یوں ہے کہ ایک دن سہ پہر دیر گئے جنرل موٹرز کا بانی ’’ولیم سی ڈیورنٹ‘‘ ایک بینک میں اس وقت داخل ہوا جب بینکنگ کا وقت ختم ہو چکا تھا اور ڈیورنٹ بھی ایک ایسے کام کے لیے کہہ رہا تھا جو عام طور پر بینکنگ اوقات میں ہی ممکن تھا۔ بینک کے پورے سٹاف میں صرف ’’کارل ڈاؤنی‘‘ ہی وہ آفیسر تھا جس نے چند قدم زیادہ چل کر نہ صرف ڈیورنٹ کا کام کردیا بلکہ اس کی عزت افزائی بھی کی۔ ڈاؤنی کا رویہ ایسا تھا کہ ڈیورنٹ کو یوں محسوس ہوا کہ وہ حقیقتاً بڑی خوش دلی سے اس کی خدمت کررہاہے۔ یہ بس ایک عام سا واقعہ تھا، اور ڈاؤنی کو یہ خیال بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کی یہ عزت افزائی جو اس نے ڈیورنٹ کو دی تھی، اتنے دور رس اثرات کی حامل ہوگی۔ دوسرے ہی دن ڈیورنٹ نے ڈاؤنی کو اپنے دفتر بلالیا اور اسے جاب کی پیشکش کی، جسے ڈاؤنی نے قبول کرلی۔ ڈاؤنی کو جنرل آفس میں ایک میز دی گئی۔ اس آفس میں 100 کے لگ بھگ لوگ اور بھی تھے۔ ڈاؤنی کو بتایا گیا کہ کام کے اوقات 8:30سے 5:30 تک ہوں گے۔ ساتھ ہی اس کی معمولی تنخواہ بھی مقرر کی گئی۔ جاب کے پہلے دن جب چھٹی کے لیے گھنٹی بجی، تو ہر شخص ہیٹ اور کوٹ اٹھا کر دروازے کی طرف لپک رہا تھا۔ ڈاؤنی خاموش بیٹھ کر دوسروں کے نکلنے کا انتظار کرتا رہا، جب سب چلے گئے، تو وہ اپنی میز پر بیٹھ کر ڈیورنٹ کے آفس سے نکلنے کا انتظار کرتا رہا۔ ٹھیک 15 منٹ بعد جب ڈیورنٹ اپنے آفس سے نکلا اور ڈاؤنی کو ابھی تک اپنی میز پر بیٹھے دیکھ کر جو کچھ کہا، وہ آپ اس تحریر کی تمہید میں پڑھ چکے ہیں۔
عزیزانِ من! دوسرے دن چھٹی کے بعد ڈاؤنی حسبِ سابق اپنے میز پر بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر بعد جب ڈیورنٹ اپنے آفس سے نکلا، تو اس نے دوبارہ پوچھا کہ کیا آپ کو علم نہیں ہے کہ ساڑھے پانچ بجے چھٹی کا وقت ہے ۔ ’’جی ہاں!‘‘ ڈاؤنی نے مسکرا کر جواب دیا: ’’مجھے علم ہے لیکن مجھے یہ کسی نے نہیں کہا کہ جب چھٹی کا وقت ہو جائے، تو مجھے لازمی دفتر سے نکل جانا چاہیے ۔ مَیں تو یہاں اس امید سے بیٹھا رہتا ہوں کہ شائد آپ کے کسی کام آسکوں۔‘‘ ڈیورنٹ متبسم ہوکر بولا، ’’بہت غیر معمولی امید ہے مسٹر ڈاؤنی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس کے بعد ڈاؤنی ہمیشہ چھٹی کے بعد اس وقت تک بیٹھا رہتا جب تک وہ ڈیورنٹ کو آفس سے جاتے ہوئے نہ دیکھتا۔ بظاہر ایک عام دیکھنے والے کی نظر میں تو وہ اپنا وقت ضائع کررہا تھا۔ کیوں کہ چھٹی کے بعد دفتر میں بیٹھے رہنے کے لیے نہ اسے کہا گیا تھا اور نہ اسے اس کا زیادہ معاوضہ ملنے والا تھا، لیکن سمجھ دار لوگ جانتے ہیں کہ ڈاؤنی جس اصول پر عمل پیرا تھا، یہ وہ اصول تھا جس کی بدولت دنیا کے تمام کامیاب لوگ کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتے رہے، یعنی ’’چند قدم زیادہ چلنا۔‘‘ یہ وہ اصول ہے جو کامیاب زندگی گزارنے والے لوگوں میں مشترک پائی جاتی ہے اور ان کامیاب لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جب بھی کوئی بھی شخص اس اصول پر عمل کرے گا، تو اُسے ضرور کامیابی ملے گی۔
بہرحال ڈاؤنی بدستور اس اصول پر عمل پیرا رہا۔ بلآخر کئی ماہ گزرنے کے بعد ایک دن مسٹر ڈیورنٹ نے اسے اپنے آفس بلایا اور کہا کہ ’’مَیں نے آپ کو ایک پراجیکٹ کے لیے منتخب کیا ہے جو حال ہی میں ہمیں ملا ہے۔ آپ کو وہاں پلانٹ مشینری لگانا ہوگی۔‘‘ مسٹر ڈاؤنی جو ایک سابق بینک آفیسر تھا۔ کوئی مشینری کا ماہر تو نہیں تھا۔ پھر بھی کسی عذر یا بہانے کے بغیر یہ نئی ذمہ داری قبول کرلی اور اپنے کام پر چلا گیا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ مسٹر ڈیورنٹ میں مشین لگانے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، یا یہ میرا کام نہیں، یا آپ مجھے مشین لگانے کے کتنے پیسے دیں گے وغیرہ۔ اسے جو حکم ملا وہ اپنے خوشگوار ذہنی رویے سے اسے بجا لایا۔ ڈاؤنی نے سارا کام اچھا اور خوبصورت طریقے سے 3 ماہ کی محنت کے بعد مکمل کیا۔ اب مسٹر ڈیورنٹ نے ڈاؤنی کو پھر اپنے آفس بلایا اور پوچھا کہ اس نے مشینری کے بارے میں کہا سے سیکھا تھا؟ ڈاؤنی نے جواب دیا: ’’مَیں نے کبھی نہیں سیکھا۔ مَیں نے اپنے اردگرد جائزہ لیا۔ وہ آدمی تلاش کیے جو جانتے تھے کہ یہ کام کیسے ہوگا۔ انہیں کام پر لگایا اور انہوں نے یہ کام کردیا۔‘‘ مسٹر ڈیورنٹ نے کہا: ’’بہت خوب!‘‘ اور یہ بھی کہا کہ ’’دو قسم کے آدمی بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کوئی کام کرسکتے ہوں اور بغیر شکایت کیے کام کو اچھے طریقے سے کریں۔ دوسرے وہ جو بغیر شکایت کیے دوسروں سے کام کرواسکتے ہوں۔ تم میں دونوں خاصیتیں پائی جاتی ہیں۔‘‘ ڈاؤنی اپنی اس قدردانی پر شکریہ ادا کرکے جانے کے لیے پلٹا، تو ڈیورنٹ نے کہا: ’’ایک منٹ ٹھہرو، مَیں تمہیں یہ بتانا بھول گیا کہ تم اس پلانٹ کے جو تم نے لگایا ہے، نئے مینیجر ہو اور تمہاری تنخواہ 50000 ڈالر ہوگی۔‘‘ یوں چند قدم زیادہ چلنے کی عادت نے چند سالوں میں ڈاؤنی کو کروڑوں کا مالک بنادیا۔
عزیزانِ من! اس واقعہ پر قدم بہ قدم غور کرنے سے آپ یہ جان لیں گے کہ ڈاؤنی کی کامیابی صرف اور صرف اس کی ذاتی پیش قدمیوں کی مرہونِ منت تھی۔ چند قدم زیادہ چلتے ہوئے اس نے ضرورت کے وقت محض ایک پنسل مسٹر ڈیورنٹ کو مہیا کیا تھا، اور اس نے ایسے آدمی تلاش کیے جو مشینری لگا سکیں۔ اگر چہ 100 کے لگ بھگ لوگ اور بھی ڈیورنٹ کے پاس کام کر رہے تھے، لیکن ان سب میں چند قدم زیادہ چلنے کی عادت نہیں تھی۔ وہ ساڑھے پانچ بجتے ہی دفتر سے بھاگ جاتے تھے ۔
اب بھی جو لوگ چند قدم زیادہ چلنے کی عادت کو سمجھ نہیں رہے۔ وہ براہِ کرم اس دوسری مثال پر غور کریں۔ کئی عشرے پہلے کی بات ہے، ایک ہارڈویئر سٹور پر ایک نوجوان سیلزمین نے دیکھا کہ بہت سی چیزیں ایسی پڑی ہیں جو بِک نہیں رہیں۔ اس نے چند قدم زیادہ چل کر تھوڑا سا وقت نکال کر سٹور کے درمیان میں ایک بڑی میز لگا دی اور اس پر وہ نہ بکنے والی چیزیں رکھ کر اس پر ہر مال ’’دس سینٹ‘‘ کا بورڈ لگا دیا۔ وہ خود بھی اور سٹور کا مالک بھی حیران رہ گئے جب یہ تمام چیزیں ریوڑیوں کی طرح بکنے لگیں۔ وہ پرانا مال بھی بکا اور اس تجربے نے 5 اور 10 سینٹ کے سٹالز سسٹم کو بھی جنم دیا۔ جو ہمارے بازاروں میں ہر مال 10 اور 20 روپے وغیرہ کے سٹالز کی شکل میں موجود ہے۔ جس نوجوان نے چند قدم زیادہ چلنے کی عادت کی بدولت فروخت کے اس نئے تصور تک رسائی حاصل کی، اس کا نام ’’فرینک ڈبلیو وول ورتھ‘‘ ہے۔ اس تصور کی بدولت وہ کروڑوں ڈالر کا مالک ہوا۔ اس کے علاوہ اسی تصور نے اور بھی بہت سے لوگوں کو دولت مند بنا دیا ۔
عزیزانِ من! آپ بھی ان لاکھوں کامیاب زندگیاں گزارنے والے لوگوں کی طرح چند قدم زیادہ چلنے کی عادت کو اپنا کر اپنی زندگی خوشگوار بناسکتے ہیں۔ کیوں کہ جو بھی اس اصول کو اپناتا ہے، اس کے لیے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس پر عمل کرنے والے شخص کی ساکھ میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور زیادہ معاوضہ یا اچھی پوزیشن کے لیے مطالبہ کرنے کا اس کے پاس معقول جواز بھی ہوتا ہے۔
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔