وکی پیڈیا کے مطابق پاکستانی فوجی افسر اور سیاست دان اسکندر مرزا 13 نومبر 1899ء کو مرشد آباد برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے الفنسٹن کالج بمبئی میں تعلیم پائی۔ کالج کی تعلیمی زندگی میں ہی رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ میں داخلہ مل گیا۔ وہاں سے کامیاب ہو کر 1919ء میں واپس ہندوستان آئے۔
قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان کی وزارت دفاع کے پہلے سیکرٹری نامزد ہوئے۔ مئی 1954ء میں مشرقی پاکستان کے گورنر بنائے گئے۔ پھر وزیر داخلہ بنے۔ ریاستوں اور قبائلی علاقوں کے محکمے بھی ان کے سپرد کیے گئے۔ ملک غلام محمد نے اپنی صحت کی خرابی کی بنا پر انھیں 6 اگست 195 5ء کو قائم مقام گورنر نامزد کیا۔ 5 مارچ 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور مارچ 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1958ء کو سیاسی بحران کے سبب ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کیا۔ 27 اکتوبر کو مارشل لا کے چیف ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے انھیں برطرف کر دیا۔ اور وہ ملک چھوڑ کر اپنی بیگم کے ہمراہ لندن چلے گئے ۔ وہیں 12 نومبر 1969ء کو انتقال کرگئے اور وصیت کے مطابق ایران میں دفن ہوئے ۔
اسکندر مرزا کی شخصیت ہمیشہ سے تنازعات کا شکار رہی۔ وکی پیڈیا کے مطابق وہ میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔ ان کے پر دادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ کے مقابلہ میں انگریزوں کے ہاتھ مضبوط کیے تھے اور ان کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔
اپنی بیماری کے ایام میں اسکندر مرزا نے اپنی بیوی ناہید مرزاکو مخاظب ہو کر کہا: ’’ہم بیماری کے علاج کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے اس لیے مجھے مر نے دو!‘‘
صدر پاکستان محمد یحیٰ خان نے ان کی میت پاکستان لانے اور یہاں دفن کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ان کے رشتہ داروں کو بھی جنازہ میں شرکت سے سختی سے روک دیا گیا۔ ایرانی بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے خصوصی طیارے کے ذریعے سکندر مرزاکی میت تہران لانے کا حکم دیا، یہاں سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ ان کے جنازہ میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ 1979ء کے انقلاب ایران کے بعد یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ کچھ شرپسندوں نے سابق صدر پاکستان سکندر مرزا کی قبر کو مسمار کر دیا۔