اسلام دینِ عدل ہے جس میں عدل کی ترغیب دیتے ہوئے حکم دیا گیا ہے کہ عدل کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے (المائدہ)۔
اسلام عقائد و احکام سے لے کر معاشرے کے ہر پہلو کے حوالے سے عدل کا درس دیتا ہے۔ اس کے عالمگیر اور عدل پر مبنی قوانین کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ معاشرتی معاملات میں سے ایک بنیادی معاملہ وراثت کا بھی ہے۔ اسلام نے جو وراثت کا نظام پیش کیا ہے، یہ مکمل طور پر ایسے عدل پر مبنی ہے جس سے تمام مذاہب محروم ہیں۔ اسلام سے قبل عورتوں پر جو ظلم و ستم کیا جاتا تھا، ان مظالم میں سے ایک ظلم یہ بھی تھا کہ عورتوں کو میراث سے محروم کیا جاتا۔ اہلِ جاہلیت، میت کی وراثت کو اس کے ورثا میں سے ان افراد کو نہیں دیتے تھے جو دشمن سے جنگ وغیرہ میں قتال نہ کرسکتے ہوں۔ جیسا کہ چھوٹے بچے اور عورتیں۔ اولاد کو چھوڑ کر فقاتلین میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ گویا کہ کمزور طبقہ محروم ہوجاتا تھا۔ اسلام نے یہ حکم دیا کہ میت جو ورثا چھوڑ کر جائے، ان کے نام لے کر ان کے حصوں کو فرض کردیا۔ میت کے چھوٹے بڑے بچوں اور بچیوں کے لیے بھی ان کے والد کی وراثت سے حصہ مقرر کیا۔ جب ان کے علاوہ کوئی اور وراث نہ ہو، تو مذکر کو مؤنث کی بہ نسبت دُگنا حصہ ملے گا۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے تقسیمِ میراث کے احکام بالکل صاف، واضح، متعین اور دو اور دوچار کی طرح مقرر کردیے۔ اس میں کوئی الجھاؤ اور شبہ تک نہیں چھوڑا۔
اس لیے کہ مال وہ پسندیدہ اور دل لبھانے والی چیز ہے کہ انسان اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔ معاشرتی دباؤ کی بنا پر کوئی زبان نہ کھولے، تو اور بات ہے لیکن دل میں خواہش، تمنا اور حق حاصل کرنے کی تڑپ ضرور موجود رہے گی۔
میراث کی تقسیم وارثوں کے حصے، حصوں کی حکمت، میراث سے قرض کی ادائیگی، وصیت پوری کرنے اور اس حکم پر عمل کرنے والوں کے لیے جنت کی خوش خبری اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دوزخ کے دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
میراث کی تقسیم میں جو حصے مقرر کیے گئے ہیں، ان کی مقدار کی مکمل حکمت و مصلحت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس لیے کہ ہماری عقل و شعور کو اس کی گہرائیوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا: ’’تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون نفع کے لحاظ سے تمہاری قریب تر ہیں۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کردیے ہیں اور اللہ یقینا سب حقیقتوں سے واقف اور تمہاری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔‘‘
تقسیم میراث کی آیات میں ’’وصیت‘‘ اور ’’ادائیگیِ قرض‘‘ کے الفاظ متعدد مرتبہ آتے ہیں۔ لہٰذا تقسیمِ میراث میں سب سے پہلے میت کے ذمے جو قرض ہے اسے ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریمؐ نے قرض دار کا جنازہ تک نہیں پڑھایا۔ اس لیے نفلی خیرات و صدقات کرنے سے پہلے تدفین کے اخراجات اور اس کے بعد قرض کے ادائیگی لازمی ہے۔
بیوی کا مہر بھی قرض میں شامل ہے، اور شوہر کے ذمے لازم ہے۔ میت کی ملکیت میں سے ایک تہائی کی وصیت بہرصورت پوری کی جانی چاہیے۔
اگر وصیت ایک تہائی میراث سے زیادہ ہے، تو زیادہ وصیت پوری کرنا لازمی نہیں ہے۔ اگر سب بالغ ورثا راضی ہوں، تو پورا کردیں۔ ورنہ زیادہ کو چھوڑ دیں۔
جب تک میراث تقسیم نہیں ہوتی تو تمام وارثوں (بہ شرط یہ کہ بالغ ہوں) سے اجازت لیے بغیر خیرات وصدقات نہ کیے جائیں۔ اگر وارث، نابالغ اور کم سن ہو، تو کسی صورت میں خیرات کرنا نہیں چاہیے، اور وارث یتیم ہونے کی صورت میں گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں خیرات کھلانے والے، کھانے والے گویا دوزخ کے ایندھن سے شکم سیر کررہے ہیں۔
میراث کے احکام کے آخر میں دو آیتیں 14-13 بہت اہم ہیں۔ ان سے تقسیم کی اہمیت، فرضیت اور اس پر ثواب و عذاب کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن سخت افسوس ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے بالکل یہودیوں کی سی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدود کو توڑ ڈالا۔
قانونِ وراثت کے معاملے میں جو نافرمانیاں کی جاتی ہیں، وہ اللہ کی خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں۔ کہیں عورتوں کو میراث سے محروم کیا گیا۔ کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ کہیں سرے سے تقسیمِ میراث کے طریقے کو چھوڑ کر مشترکہ خاندانی جائیداد کا طریقہ اختیار کیا گیا اور کہیں عورتوں اور مردوں کا حصہ برابر کردیا گیا۔
میراث کو قرآن مجید کے احکام کے مطابق تقسیم کرنا وارثوں پر فرضِ عین ہے، اور دوسرے رشتہ داروں اور برادری اور خاندان کے بزرگوں پر فرضِ کفایہ ہے۔ اگر کچھ لوگ میراث کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام کے مطابق تقسیم کرنے کی تلقین کریں، اور ترغیب دیں، تو ان پر سے فرضِ کفایہ اتر جائے گا اور وارثوں پر فرضِ عین ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ خوش دلی اور رضا و خوشی سے میراثِ شریعت کے مطابق تقسیم کرنے پر متفق ہوجائیں، تو سب سے فرض اتر جائے گا۔
میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود، نصاریٰ، ہندوؤں اور غیر مسلم اقوام کا طریقہ ہے۔
میراث کا شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کی نافرمانی ہے۔ یہ صریح فتن ہے۔ لہٰذا ایسا شخص فاسق اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ خاص طور پر برسہا برس اس پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا تو اور بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔
میراث کے حق داروں کا مال کھانا ظلم ہے، اور یہ شخص ظالم ہے۔ اور اگر وارث اپنے قبضے اور تحویل میں لے لیں، اور پھر کوئی طاقت ور وارث چھین لیں، تو یہ غصب ہوگا۔ اس کا گناہ ظلم سے بھی زیادہ ہے۔ میراث پر قبضہ کرنے والے کے ذمے میراث کا قرض ہوگا، اورفرض بھی۔ یہ واجب الادا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں ادا نہیں کرے گا، تو آخرت میں لازماً دینا ہی ہوگا۔
صدقہ اور انفاق کرنا، حج و عمرہ کرنا اگرچہ فتوے کی رو سے جائز اور اس سے حج کا فریضہ ادا ہوجائے گا، لیکن ثواب حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ پاک و طیب مال قبول کرتا ہے۔
جو میراث کا مال کھاجاتا ہے، اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والا دوزخ میں داخل ہوگا۔
جو اشخاص میراث کا مال کھا جاتے ہیں، حق دار وارث ان کو بددعائیں دیتے ہیں۔
میراث مستحقین کو نہ دینے والا حقوق العباد تلف کرنے کا مجرم ہے۔
شریعت کے مطابق مال (ورثہ) تقسیم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ لہٰذا جو حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی، وہ اپنے فرائض میں کوتاہی کرتی ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔