مولانا حکومتی صفوں میں کھلبلی مچانے میں کامیاب

پاکستان میں پہلا دھرنا جماعتِ اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد نے مرحومہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دیا تھا۔ دوسرا دھرنا موجودہ حکومت پاکستان تحریک انصاف نے میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف دیا تھا۔ اب مولانا فضل الرحمان دھرنا دے کر اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مولانا صاحب کہتے ہیں کہ وہ چیئرمین تحریکِ انصاف وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گرا کر دم لیں گے۔ ویسے مولانا صاحب تو پہلے ہی دن سے عمران خان کے خلاف ہیں۔ جولائی 2018ء کے الیکشن کے نتائج آتے ہی مولانا نے انتخابی نتائج مسترد کر دیے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہ لینے پر راضی کیا جاسکے۔ چھوٹی سیاسی جماعتوں نے مولانا کی تجویز کی حمایت کی، لیکن دونوں بڑی پارٹیوں پی پی پی اور پی ایم ایل نون نے مولانا کا مشورہ ماننے سے انکار کیا، لیکن مولانا نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری، اور وہ اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیاں چاہتی ہیں کہ ایوان کے اندر رہ کر حکومت کے خلاف دباؤ بڑھایا جائے جب کہ مولانا چاہتے ہیں کہ حکومت کو طاقت کے بل پر گرایا جائے۔ آپ اسے دھرنا کہہ لیں یا احتجاج، دونوں سیاسی پارٹیاں تذبذب کا شکار ہیں۔ قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف اپنے محترم قائد اور بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کی ہدایات کے باوجود صحت کی خرابی کا سرٹیفکیٹ پیش کرتے ہوئے معذرت پر معذرت کیے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی مذہبی کارڈ کے استعمال کے خلاف ہے، کبھی دھرنے میں جمہوریت کے خلاف مضمرات کے بہانے تلاش کرتی نظر آ رہی ہے۔ پی پی پی اور مسلم لیگ دونوں مارچ کو ڈیلے کرنا چاہتے ہیں، لیکن مولانا ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ اسمبلیوں کو جانا چاہیے۔ پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل کو مولانا کی یہ کوشش بے وقت کی راگنی اور مہم جویانہ قسم کی شے نظر آتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں کوششیں کر رہی ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کو مارچ اور لاک ڈاؤن کا احتجاج مؤخر کرنے پر راضی کریں۔ دونوں جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ نون کو ڈر ہے کہ اگر مولانا کا ساتھ دیتے ہیں، تو بیرونی دنیا میں اپنے "لبرل ازم” کا بھرم کیسے قائم رکھیں گے؟ انہیں یہ خدشہ ہے کہ اگر حمایت نہیں کرتے، اور میلہ مولانا لوٹ لیتے ہیں، تو ان کی سیاست داؤ پر لگ سکتی ہے۔ اس لیے مولانا کے آزادی مارچ نے دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے، کہ وہ کریں، تو کیا کریں؟ نہ کھل کر مارچ میں شمولیت کا اعلان کرسکتی ہیں، اور نہ لاتعلق ہی رہ سکتی ہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ آزادی مارچ میں دونوں پارٹیوں کے سربراہوں میں سے کوئی بھی شرکت نہیں کرے گا۔ اس موقعہ کے لیے وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
کچھ محتسب کا خوف ہے کچھ شیخ کا لحاظ
پیتاں ہوں چھپ کے دامنِ ابرِ بہار میں
مولانا پہلے دھرنے کی باتیں کر رہے تھے، لیکن اب دھرنا کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج تک محدود کر دیا ہے۔ تب سے بلاؤل نے نعرہ لگانا شروع کیا ہے کہ "دھرنا ہوگا، مرنا ہوگا۔”
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مولانا، جنرل پرویز مشرف، بے نظیر، نواز شریف اور زرداری حکومت میں کشمیر کمیٹی کے برسوں چیئرمین رہے ہیں، لیکن انہوں نے کشمیر کے لیے ایسا کوئی مارچ ترتیب دیا، نہ مہنگائی اور کرپشن کے خلاف کوئی احتجاج ہی کیا۔ اب جب کہ مولانا پر ہر قسم کی مراعات بند ہوچکی ہیں، تو مولانا نے آزادی مارچ اور آسلام آباد کے لاک ڈاؤن کا تماشا شروع کر رکھا ہے۔
مولانا پر یہ بھی الزام ہے کہ باوردی نوجوانوں کی تربیت اور پریڈ کس لیے؟ مولانا نے خود اس فورس کی طرف سے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا۔ اگر سیکورٹی فورسز مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کریں گی، تو کیا مولانا کی یہ ڈنڈا بردار فورس تماشا دیکھے گی؟ بالکل نہیں، بلکہ یہ تو سراسر تصادم کی فضا بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ مولانا کا یہ عمل ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مترادف ہے۔
نیٹ پر وائرل ایک ویڈیو پیغام میں مولانا فضل الرحمان پر داعش کے کارندے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔ یہ کہ داعش مولانا کے کارکنوں کو تربیت دے رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مولانا کے مارچ میں داعش کے اہلکار شریک ہوں گے جو پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو نشانہ بنائیں گے۔ مولانا فضل الرحمان ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، اور ان کی سیاسی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں۔ آزادی یا لاک ڈاؤن سے وہ سیاسی فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔ ان کے اسلام آباد لاک ڈاؤن کا مقصد اپنی سیاسی طاقت اور منصوبہ بندی کا مظاہرہ کرنا ہے، تاکہ مستقبل میں آنے والی کسی بھی سیاسی حکومت میں انہیں زیادہ سے زیادہ حصہ داری مل سکے۔ مولانا فضل الرحمان خوب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی احتجاج، تحریک اور دھرنا اس حد تک کامیاب نہیں ہوا کہ احتجاج یا دھرنے کے نتیجہ میں برسرِ اقتدار جماعت کی حکومت ختم ہوئی ہو۔ اس لیے مولانا پسِ پردہ رابطوں کا آغاز بھی کر چکا ہے، اور طاقتور حلقے کی طرف سے انہیں مارچ مؤخر کرنے کی پیشکش بھی آ رہی ہے، مگر مولانا کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ وہ بہر صورت ڈی چوک میں میدان سجانا چاہتے ہیں۔ مولانا کا منصوبہ احتجاجی دھرنا ہو، معاملہ آزادی مارچ ہو، یا اسلام آباد کے لاک ڈاؤن تک محدود رہنا ہو، البتہ حکومتی صفوں میں کھلبلی ضرور مچی ہوئی ہے کہ اس بلا سے جان کیسے چھوٹے گی؟

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔