باعتبارِ مستعار لہ، مستعار منہ، وجۂ جامع۔ یہ چھے قسم پر ہے۔
٭ طرفینِ استعارہ اور وجۂ جامع تینوں حسی ہوں، بقولِ دبیرؔ
کی پشت سوئے خیمہ رُخِ اعدا کے سامنے
اُگلے دہن سے لعل شہِ خاص و عام نے
منھ سے خون نکلنے کا استعارہ لعل اُگلنے سے کیا ہے۔ خون مستعارلہ، لعل مستعارمنہ اور یہ دونوں حسی ہیں اور وجۂ جامع یہاں سرخ رنگ ہے جو حسِ باصرہ سے متعلق ہے۔
٭ طرفینِ حسی اور وجۂ جامع عقلی:۔ جیسے شیر سے مرد شجاع کا استعارہ کہ جامع اس میں جرأت ہے اور وہ امرِ عقلی ہے۔ میرؔ صاحب اپنے کتے کی تعریف میں فرماتے ہیں:
چوہا کیا ہے جو سامنے آئے
گھونس سے بھی یہ شیر بھڑجائے
کتا مستعار لہ اور شیر مستعار منہ، وجۂ جامع ان میں جرأت ہے۔
٭ مستعار لہ حسی اور مستعار منہ اور وجہ جامع عقلی ہوں:۔ جیسے معشوق کو جان اور آفتِ جان سے استعارہ کریں جیسے:
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو
اس شعر میں مستعار لہ (محبوب) حسی ہے جب کہ مستعارمنہ (فتنہ) اور وجۂ جامع (بربادی) دونوں عقلی ہیں۔ کوئی شخص ایک امرکی تلاش اور تردد کو نہ چھوڑے، تو کہیں گے وہ باز نہیں آتا۔ نہ چھوڑنا حسی ہے اور باز نہ آنا عقلی ہے۔ وجۂ جامع ان میں عدم سکونت و اطمینان ہے۔ بقولِ میرؔ:
پھر جائے ہے غیر اُس سے ملنے
آئے نہیں باز ایسے تیسے
٭ مستعار منہ حسی اور مستعار لہ اور وجۂ جامع عقلی ہوں:۔ جیسے کوئی شخص ایک امر کی تلاش کے بعد تردد کے مایوس ہوجائے، تو کہیں اب اُس نے ہاتھ اُٹھالیا، ہاتھ اُٹھانا حسی ہے، اور مایوس ہوجانا عقلی ہے۔ وجۂ جامع اس میں انتفاع و عدم منفعت ہے۔ بقولِ میرؔ:
یوں تو سو بار آؤ جاؤگے
پیسے تدریج ہی سے پاؤگے
اور اس پر بھی جو ستاؤگے
اپنے پیسوں سے ہاتھ اُٹھاؤگے
بوجھ میں اپنے سر سے دوں گا ٹال
جیسے قطعِ تعلق و ترکِ شے کو ہاتھ دھو بیٹھنے سے استعارہ کریں۔ ہاتھ دھو بیٹھنا، حسی ہے اور قطعِ تعلق اور ترکِ شے عقلی اور وجۂ جامع اس میں سکونت و اطمینان ہے۔ بقول خواجہ میر دردؔ
ہوا جو کچھ کہ ہونا تھا، کہیں کیا جی کو دھو بیٹھے
بس اب ایک ایسا ہم دونوں جہاں سے ہاتھ دھو بیٹھے
یعنی دونوں نے جہاں سے قطعِ تعلق کیا ۔
٭ مستعار لہ، مستعار منہ اور وجۂ جامع تینوں عقلی ہوں: (یہاں جامع کا عقلی ہونا لازم ہے۔ کیوں کہ محسوس کا قیام معقول کے ساتھ صحیح نہیں) ۔بقول میرؔ:
کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا
ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سُلا رکھا
یعنی بہت سے آدمیوں کو فنا کردیا۔ فنا کردینے کا استعارہ سلا رکھنے سے کیا ہے۔ مستعار منہ’’سلا رکھنا‘‘ ہے، مستعارلہ ’’فنا کردینا‘‘ ہے۔ وجۂ جامع ان میں افعال کا نہ ظاہر ہونا ہے، اور یہ تینوں عقلی ہیں۔ بقولِ حالیؔ:
چھوڑو افسردگی کو ہوش میں آؤ
بس بہت سوئے، اُٹھو ہوش میں آؤ
عاقل رہنے کا استعارہ سونے کے ساتھ کیا ہے۔ وجۂ جامع بے پروائی و غفلت ہے، اور تینوں عقلی ہیں۔
٭ طرفین حسی ہوں اور وجۂ جامع مرکب ہو، یعنی حسی و عقلی اجزا کا امتزاج ہو: جیسے شخصِ جلیل القدر کا استعارہ آفتاب سے کریں۔ حس اور شان و بزرگی کا مجموعہ وجۂ جامع ہے۔ بقولِ میر حسنؔ
وزیروں نے کی عرض کہ اے آفتاب
نہ ہو ذرا تجھ کو کبھی اضطراب
کروں مختصر یاں سے اب غم کی بات
لگا رہنے اُس میں وہ آبِ حیات
بے نظیر کا استعارہ آبِ حیات سے کیا، اور وجۂ جامع اس میں عزیز الوجود ہونا ہے، اور لوگوں کی نظروں سے مخفی رہنا ہے۔
مدام اپنی بغل میں وہ آفتاب رہا
ہمارے دور میں دورِ شراب نایاب رہا
آفتاب کا استعارہ معشوق سے کیا ہے۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔