جن دنوں ادب میں استحکام کو لے کر بحث چل رہی تھی اور اردو ادب میں ہو رہی نعرے بازی اور نمائشی شاعری کا تجزیہ کیا جا رہا تھا۔ مَیں نے کیفی اعظمی کی شاعری پر ایک بھرپور تنقیدی مضمون لکھا اور ادبی ثبوت دے کر یہ ثابت کر دیا کہ کیفی اعظمی پہلے تو شاعر ہی نہیں، اور اگر مان بھی لیں کہ شاعر ہیں، تو تیسرے درجے کے۔ یہ مضمون مَیں نے ’’ترقی پسند مصنفین کی انجمن‘‘ کی ایک میٹنگ کے ہفتہ وار جلسے میں پڑھا۔ جناب سردار جعفری اس جلسہ کے صدر تھے۔ مضمون حیرت انگیز ہونے کے باوجود خوب پسند کیا گیا۔ سردار جعفری نے اس مضمون کا اثر کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، لیکن ہوا کا رُخ بدل چکا تھا۔ ساری محفل میرے رنگ میں رنگی تھی اور میرے حق میں بھی تھی۔
اگلے ہفتے ترقی پسند مصنفین کی انجمن کی ایک میٹنگ میں جناب سردار جعفری نے میری شاعری پر ایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون میں انہوں نے میری معروف نظم ’’تاج محل‘‘ کے بارے میں کہا کہ میری شاعری نچلے درجے کی اور گھٹیا شاعری ہے اور تاج محل کو عزت کی نظروں سے دیکھا جانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ ہمارے قومی ورثے کی علامت ہے۔ مَیں نے مضمون کو بہت ہی ٹھنڈے دماغ سے سنا (اس دوران تمام سننے والوں میں یہ خوف پیدا ہوچلا تھا کہ اب میرا جواب کیا ہوگا؟) اور مضمون مکمل ہونے پر مَیں نے ان سے ٹھنڈے سے لہجے میں کہا: ’’جناب سردار جعفری صاحب! اس مضمون سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ مَیں شاعر ہی نہیں ہوں، یا گھٹیا شاعر ہوں، لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ کیفی اعظمی بڑے اور اول درجے کے شاعر ہیں؟‘‘
میرے اس دو ٹوک ٹھنڈے مگر زہر آلود طنز سے محفل زعفراں زار ہوگئی اور سردار جعفری اور کیفی پر اس کا اثر بہت تیز ہوگیا۔
(ساحرؔ لدھیانوی کی خود نوشت سوانح ’’مَیں ساحرؔ ہوں‘‘ از ’’چندر ورما، ڈاکٹر سلمان عابد‘‘ مطبوعہ ’’بُک کارنر پرنٹرز اینڈ پبلشرز، جہلم‘‘ ستمبر 2015ء کے صفحہ نمبر 201 اور 202 سے انتخاب)
