عرض کیا تھا۔ دنیا میں معاملات یاریوں پہ نہیں ،مفادات پہ طے ہو رہے ہیں۔ دوستیاں بے شک ہیں، لیکن دوستیوں میں بھی کسی نہ کسی حد تک اپنا مفاد سب سے اہم ہوتا جا رہا ہے۔ چین ہمارا دیرینہ دوست ہے ، لیکن آج جب کہ گلی محلے میں دوست آپ کے ساتھ بنا مقصد کے نہیں، تو آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ عالمی منظر نامے پہ دوستیاں بے لوث ہوں گی۔ سی پیک ایک ایسا راستہ ہے جو اس دوستی کو یقینی معنوں میں مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کے معاشی مفادات کو بھی مضبوط کر رہا ہے۔ اسی طرح دنیا کے دیگر ممالک بھی ایک دوسرے کے ساتھ بے لوث دوستیوں کے بجائے معاشی مفادات میں بندھتے جا رہے ہیں۔ ترکی، روس سے جدید اسلحہ خریدنا چاہ رہا ہے بجائے امریکہ کے۔ بھارت پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تیل و گیس کی تجارت جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ برطانیہ یورپی یونین سے نکلنے کی وجہ سے سیاسی طور پہ شٹل کاک بنا ہوا ہے۔ افریقی ممالک اپنا مستقبل چین کی سرمایہ کاری میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ نئے اتحاد بن رہے ہیں۔ پرانے ٹوٹ رہے ہیں، لیکن اس پورے عالمی منظر نامے میں ہم کہاں جا رہے ہیں؟
بھارت نے کشمیر میں آرٹیکل 25-A اور 370 کو پنگ پانگ بال کی صورت جو اچھالا، تو یہ معاملہ عالمی سطح پہ اجاگر بھی ہونا شرو ع ہوگیا۔ یہاں سے ایک عجیب صورتحال سامنے آئی۔ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات اس وقت مثالی نہیں ہیں، لیکن ایران کی طرف سے کچھ نہ کچھ ردِعمل آیا۔ یار رہے کہ ایران کو اس وقت بھارت سے زرمبادلہ کی لالچ بھی ہے، اس کے باوجود کچھ نہ کچھ ردعمل آ گیا۔ ترکی نے بھی اس موقعہ پر جو مؤقف اپنایا وہ حوصلہ افزا یقینا تھا، کیوں کہ ترکی اس وقت علاقائی سے آگے نکل کر عالمی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آتا جا رہا ہے۔
چین نے بھی کسی حد تک پاکستان کے موقف کی تائید اس لیے کی کہ سی پیک کے ساتھ ساتھ چین افریقی ممالک میں بھی بہت بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور امریکی مفادات کو اگر کسی ایک جانب سے زک پہنچنے کا خدشہ ہے، تو وہ چین کی ابھرتی ہوئی صنعتی طاقت بننے سے ہے، اور یہ حقیقت بھی ہے۔
ذکرِ خیر عرب ممالک کا،
جن پتوں پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
متحدہ عرب امارت، دیگر خلیجی ریاستیں، سعودی عرب اور کم وبیش پورا خطۂ عرب کسی بھی طور اپنے کاروباری مفادات پہ مسلم اُمہ کے مفادات کو ترجیح دینے پہ تیار نہ ہوا۔ لعن طعن کا بازار گرم ہوا۔ یارانِ جہاں نے دور کی کوڑی لائی کہ 100 ارب نظر آتے ہیں، تو پھر بھلا کیسی اُمہ ، کون سی اُمہ اور وقت نے ثابت کیا کہ ایسا ہی ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ اُمہ کے سرخیل یہاں آن پہنچے اور ہمیں یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ کشمیر کے مسئلے کو مسلم اُمہ کے مسئلے سے نہ تعبیر کیا جائے۔ اور اپنی دانست میں وہ کروفر سے واپس گئے کہ، ’’ہنہ، تم پاکستانی اور تمہارے مسئلے، خود سنبھالو بھئی!‘‘
لیکن پھیری کے پھیر ہوتے ہیں۔ مکافاتِ عمل بھی کسی چڑیا کا نام ہے، جو بویا جاتا ہے وہ کاٹنا بھی پڑتا ہے اور کچھ ایس ہی ہوا۔
یمن تنازعے میں گرہیں تو سعودی عرب و اتحادیوں نے ہاتھوں سے لگائی تھیں، لیکن اب وہ گرہیں دانتوں کی پوری طاقت سے کھلنے میں نہیں آ رہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ گرہیں اور مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔ ابھی اپنا مسئلہ ہونے کا طعنہ دینے کے لفظوں کی بازگشت گونج رہی تھی، کہ آرامکو پہ دھاوا بول دیا گیا۔ کوئی شک نہیں یہ ایک ایسی کارروائی تھی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور لمحوں میں تیل کی پیداوار میں قابلِ ذکر کمی ہوگئی۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اسلحے کے انبار خریدنے کے باوجود ایک ڈرون آیا اور آئل ریفائنری کو نشانہ بنا گیا۔ تیل کی پیداوار کم ہوئی۔ ترسیل کم ہو گئی۔ عالمی مارکیٹ میں قیمتوں پہ الگ سے اثر پڑا۔ اب طعنے دینے والوں کو ہوش آیا کہ ہم تو اپنا دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں۔ پھر سے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔ بانہیں وا کر دی گئیں، اور تو اور اب بھلا جب معلوم ہوا کہ ہم تو دفاع کے لیے انہی کی طرف دیکھیں گے، تو خصوصی جہاز فراہم کیا گیا۔ بھلا، آپ ہمارے دوست ہیں اور کمرشل پرواز سے جائیں گے، ایسا تو ہونے سے رہا۔
دورہ مکمل ہو گیا۔ اب یقینا اس کے فوائد و نقصانات پہ بحث کی جا سکتی ہے۔ جب کچھ دن پہلے کشمیر کے مسئلے پہ ہمیں جھنڈی کروا دی گئی تھی، تو ہمیں بہرحال ہر ممکن طور پر خصوصی طیارے کی آفر کا مسکراتے ہوئے انکار کرنا چاہیے تھا، یا انکار کی کوشش کم از کم کرنی چاہیے تھی۔ یہ مفادات کی دوستی ہے، یہ مطلب کی یاری ہے۔ کچھ دن پہلے جب ہم پکار رہے تھے، تو وہ پکار سننے کو تیار نہ تھے۔ اور اب جب اپنی جان پر آپڑی، تو خصوصی طیارہ حاـضر کر دیا گیا۔ اور مشیر نہ جانے کیسے ہیں جو اتنی سے بات سمجھانے سے قاصر ہیں کہ ’’جناب والا! پراکسیز کا دور ہے۔ پراکسی وار خطے میں عروج پہ ہے۔ ہماری توقیر کیا اب خصوصی طیاروں کی مرہونِ منت ہے؟‘‘
یہاں دل سے کوئی طیارے نہیں دیتا، صرف مفادات اہم ہیں اور ہماری قدر بھی دنیا میں اہم اسی وقت ہوگی، جب ہم اپنے وقار کا خیال کریں گے، اور اپنے مفادات کو مقدم جانیں گے۔ حیرت کی بات یہ کہ طیارہ بخش دیا گیا، لیکن کشمیر کے بارے میں واضح بیان کے حوالے سے ’’ہنوز دلی دور اَست۔‘‘ جب دنیا اپنے مفادات کے لیے ہمارے دشمن کے ساتھ سرمایہ کاری کر رہی ہے، تو ہم کب تک جذباتیت کا چشمہ پہنے رکھیں گے؟
آج یمن میں حالات ہماری وجہ سے تو خراب نہیں۔ خود اپنا آپ گریباں چاک کیا ہوا ہے۔ ہم اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ ’’جناب! ہمارے لیے ہماری کمرشل پرواز ہی بھلی ہے۔ اور آپ ہم سے توقعات کے مینار اتنے ہی بلند کیجیے جتنا آپ ہمارے لیے خود کر سکتے ہیں۔‘‘
وہ دن گئے کہ جب بے لوث تعلقات ہوا کرتے تھے۔ اب تو ہر دورے میں کچھ نئے مطالبات سامنے آتے ہیں۔ اپنا گھر مضبوط کیجیے۔ دوسروں پہ انحصار کم کیجیے۔ دوسرے آپ پہ انحصار کریں، تو انہیں وہ وقت یاد دلائیے جب آپ نے ان پہ انحصار کیا اور انہوں نے منھ پھیر لیا۔ خصوصی جہاز کا ایک پھیرا ہی کہیں ہمیں بھاری نہ پڑ جائے۔
دنیا مطلب دی او یار!

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔