’’اسلام کی آمد کے ایک سو سال بعد مسلمان چین آگئے تھے۔ اس کا ثبوت چوان زو شہر کے ان مقبروں سے ملا جو تینگ بادشاہوں کے دور میں ساتویں صدی میں بنائے گئے تھے۔ اس کے بعد سونگ بادشاہوں کے دور(960-1279) میں تین سو سال تک مسلمان تاجروں، سیاحوں اور علماء کے قافلے چین آتے رہے اور بہت سے یہاں آباد ہوگئے۔مسلمانوں نے چین میں کاغذ بنانا سیکھا اور پھر یہ فن وہ سمر قند، بغداد، مرکش، فیض اور قرطبہ لے گئے۔ وہاں کاغذ بنانے کے کارخانے لگائے گئے۔ سب سے نمایاں سیاح ابن بطوطہ تھا جو تیرھویں صدی مین چین آیا۔ چین میں اکثر مسلمان ’’ہوئی‘‘ قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں اکثر ان تاجروں اور سیاحوں کی اولاد ہیں جو نویں اور دسویں صدی میں عرب اور ایران سے یہاں آئے تھے۔ سب سے پرانی مسجد ہوئے شنگ میں ہے جو گوانگزو میں ہے۔ یہ مسجد ساتویں صدی کے اوائل میں تعمیر کی گئی تھی۔ مقامی زبان میں اسے روشنی کا پگوڈا کہتے ہیں۔اس وقت چین میں چھ کروڑ مسلمان ہیں۔ صرف بیجنگ میں پچاس مسجدیں ہیں۔بے شمار حلال ریستوران ہیں اور کئی محلے ایسے ہیں جہاں صرف مسلمان ہی رہتے ہیں۔الحاج عبدالرحیم ہورونی نے 1209ء میں بیجنگ میں پہلا مدرسہ قائم کیا تھا۔ اس کے بعد ایک ماہر فلکیات جمال الدین نے ایک رسد گاہ بنائی تھی جو اب تک کام کررہی ہے‘‘۔ (ضیاء الدین سردار کی کتاب "جنت کے لیے سرگرداں” سے اقتباس، باب نمبر 14، صفحہ نمبر 296-97)