شکاگو بھی کبھی کراچی تھا

جب مون سون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں، تو ہوا کے دوش پر رقصِ سحاب ہوتا ہے۔ پھوار کا ہلکا سا نقاب حسینۂ فطرت کے چہرے پر آویزاں ہوتا ہے۔ ہر طرف سبزہ لہراتا ہے، پھول پتیاں بارش میں بار بار منھ دھو کر نکھر جاتی ہیں اور حسن، فطرت کا جوبن سنوار لیتا ہے۔ شبابِ نوخیز کی مستی پوری فضا پر چھا جاتی ہے، لیکن مون سون کی یہ بارشیں شروع ہوتے ہی کراچی کا نظامِ زندگی درہم برہم ہوجاتا ہے۔ شہرِ قائد کی سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں اور تا حدِ نگاہ پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ لوگ محنت سے پیسے کما کر جو گاڑیاں خریدتے ہیں، وہ بارانِ رحمت کے پانی میں ڈوب کر ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ بروقت بل کی ادائیگی کے باوجود کئی کئی دنوں تک بجلی کی فراہمی معطل ہو جاتی ہے۔ بارش کا پانی جمع ہونے کے باعث بیشتر علاقوں میں سڑکیں اور سیوریج کی لائنیں دھنس جاتی ہیں۔ شہر کے قبرستانوں اور خدا کے پاک گھروں کے اندر نالوں کا گندا پانی پہنچ جاتاہے۔ دن رات کی دعاؤں کے بعد جب بارش آتی ہے، تو اپنے ساتھ درجنوں معصوم جانیں لے کر ہی جاتی ہے۔ بعض ڈوب کر مرتے ہیں، تو بعض کرنٹ لگنے سے۔ پچھلے ہفتے بھی 3بچے جو سگے بھائی تھے، بارش کے پانی سے بنے تالاب میں ڈوب کر مرے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ بارشوں کے بعد صفائی نہ ہونے کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ ڈائیریا، گیسٹرو اور ملیریا کے مریضوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے جب کہ گندگی کے باعث پھیلنے والی بیماریوں سے متاثر ہونے والوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ دو بڑے ہسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ بارشوں کے بعد ڈائیریا اور گیسٹرو میں مبتلا 3500 سے زائد بچے لائے گئے ہیں۔ مئیر کراچی ’’وسیم اختر‘‘ کا کہنا ہے کہ ہم شہر کو صاف کرنا چاہتے ہیں، لیکن کراچی اور ضلعی انتظامیہ کے پاس وسائل نہیں ہیں۔
عزیزانِ من، 3 سال مئیر کراچی رہنے والے وسیم اختر خود اعتراف کررہے ہیں کہ ہمارے پاس شہر کو صاف کرنے کے لیے وسائل نہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ اکیسویں صدی میں ایٹمی طاقت کہلانے والا ملک اپنے سب سے بڑے شہر کے گند کو صاف کرنے کے لیے بھی وسائل نہیں رکھتا۔ آج شہرِ قائد کے عوام جن مشکلات سے دوچار ہیں، بالکل اسی حالت میں آج سے تقریباً 165 سال پہلے ’’شکاگو‘‘ شہر کے باشندے تھے۔ براہِ کرم، آپ کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے انیسویں صدی کے شکاگو کی حالت ملاحظہ فرمائیں۔ 19ویں صدی کے شکاگو شہر کی بلندی ’’مشیگن‘‘ جھیل کے ساحل سے اونچی نہیں تھی۔ کئی سالوں سے شہر کی سطح سے قدرتی طور پر نکاسیِ آب کا ہونا کم تھا، یا بالکل نہیں تھا۔ نکاسیِ آب کے خلل کی وجہ سے شہریوں کی زندگی ناخوشگوار حالات سے دوچار تھی۔ جگہ جگہ کھڑے پانی کے تالاب امراض کے اڈے بن چکے تھے۔ جس کے سبب بے شمار وبائیں پھیل چکی تھیں۔ ٹائفائڈ بخار اور پیچش سمیت وبائی امراض نے شکاگو شہر کو لگاتار 6 سال تک اپنی لپیٹ میں لیے رکھا تھا۔ 1854ء میں ہیضے کی وبا اس قدر پھیلی جس نے 6 فیصد شہریوں کی جان لی تھی۔ اس بحران نے شہر کے انجینئرز اور عمائدین کو نکاسیِ آب کا مسئلہ سنجیدگی سے اٹھانے پر مجبور کردیا۔ کافی گرما گرم مباحثوں کے بعد بلآخر ایک حل تجویز ہوا۔ 1856ء میں انجینئر ’’ایلس ایس چیسبرو‘‘ نے کامن کونسل میں ایک منصوبہ پیش کیا کہ شہر بھر میں ’’سیوریج سسٹم‘‘ کی تنصیب کی جائے اس منصوبے کو کونسل نے منظور کرکے اس پر عمل شروع کردیا۔ گندے پانی کے لیے نالے بنانے کے بعد اسے ڈھانپ کر پورے شہر کو اٹھانے کا عمل شروع کیا گیا۔ اور پورے شہر کی سڑکوں اور گلیوں کو مٹی جب کہ عمارتوں کو ’’جیک سکریو‘‘ کی مدد سے 4 فٹ تا 6فٹ 8 انچ تک اٹھایا گیا تھا۔ جنوری 1858ء میں شکاگو شہر میں پہلی اینٹوں سے بنی معماری عمارت اٹھائی گئی۔ چار منزلہ یہ عمارت 70 فٹ لمبی اور 750ٹن وزنی تھی، جو شمالی مشرقی گلیوں ’’رینڈولف اور ڈئیربرن‘‘ کے کارنر پر واقع تھا۔ دوسو جیک سکریوز کی مدد سے اس عمارت کو 6 فٹ اور 8 انچ تک اٹھایا گیا تھا۔ اسی سال تقریباً 50 عمارتیں اٹھا دی گئی تھیں۔ 1860ء میں ان کی مہارت کافی بڑھ چکی تھی۔ چند انجینئرز کی شراکت نے جس میں ’’جیمز براؤن‘‘، ’’جیمز ہولنگزورتھ‘‘ اور ’’جارج پالمن‘‘ سرفہرست تھے۔ ان انجینئرز نے تقریباً آدھا شہر اٹھا دیا تھا، جس میں دفتر، دکانیں اور اینٹوں سے بنی 320 فٹ لمبی عمارتیں شامل تھیں، جس کی اونچائی 4 سے تا 5 منزلوں پر مشتمل تھی۔ بڑی حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ان عمارتوں کو اٹھانے کے وقت بھی کاروبار متاثر نہیں ہوتے تھے ۔ لوگ معمول کے مطابق آتے جاتے،دکانوں میں کام کرتے اور خرید وفروخت جاری رکھتے تھے۔ اسی سال ایک اور ٹیم جسے دو انجینئرز’’ایلی سمتھ‘‘ اور ’’مسٹر پالمن‘‘ لیڈ کر رہے تھے، نے ’’ٹیری ماؤنٹ ہاؤس ہوٹل‘‘ اٹھایا تھا۔ یہ شش منزلہ عمارت کافی پُرتعیش تھی اور اٹھانے کے عمل کے دوران میں بھی اس میں لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ یہاں تک کہ امریکی سینیٹرز اور بہت سارے وی آئی پیز اسی ہوٹل میں قیام پذیر ہوتے، جب کہ 500 لوگ 5 ہزار جیک سکریوز کی مدد سے عمارت اٹھانے میں مصروف رہتے تھے۔
ایک اور قابلِ ذکر کارنامہ ’’روبنز بلڈنگ‘‘ کو اٹھانا تھا، جو جنوبی ’’واٹر سٹریٹ‘‘ اور ’’ویلز سٹریٹ‘‘ کے کارنر پر واقع تھا۔ یہ عمارت 150 فٹ لمبی اور 80 فٹ وسیع جب کہ 5 منزلوں پر مشتمل تھی۔ یہ بہت بھاری عمارت تھی، جو 12 انچ موٹے لوہے کے فریم سے مزین تھی جس میں پتھر چنے گئے تھے۔ اس عمارت کا وزن تقریباً 27000 ٹن تھا، جس کا ٹھیکا ’’ہولنگزورتھ‘‘ اور ’’مسٹر کفلن‘‘ نے لیا تھا۔ 1865ء میں انہوں نے نہ صرف اس بلڈنگ کو بلکہ اس کے ساتھ 230 فٹ پر مشتمل فٹ پاتھ کو بھی 28 انچ تک اٹھا دیا تھا۔ ذرا سا کریک یا ڈیمیج ہوئے بغیر بلڈنگ اٹھانے کا یہ کارنامہ انہوں نے انجام دیا تھا۔
عزیزانِ من، ’’رائزنگ آف شکاگو‘‘ کے نام سے دنیا ان کارناموں کو یاد کرتی ہے۔ شکاگو کی عمارتیں آج بھی اپنے ان گزرے معماروں کے بلند عزائم، توانائی اور عجیب فن کاری کی گواہی دیتی ہیں۔
1856ء کے شکاگو کے واقعات آپ نے ملاحظہ کیں۔ کیسے انہوں نے اپنے آپ کو اس شدید بحران سے نکالا تھا۔ ان کے پاس نہ تو جدید اور بھاری مشینری تھی اور نہ موجودہ دور کے کمپیوٹر سے جڑے آلات۔ اس کے برخلاف آج ہمیں روئے زمین کے سارے وسائل تک رسائی حاصل ہے، لیکن پھر بھی ہم اپنے ملک کے بڑے شہر کے سیوریج سسٹم کو ٹھیک نہیں کرسکتے۔ مجھے تو مئیر کراچی کی اس بات پر تعجب ہے کہ ہمارے پاس وسائل نہیں۔ ہم تو چند منٹ میں انڈیا اور اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی باتیں کرتے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس سیوریج سسٹم کو ٹھیک کرنے کے وسائل نہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی انیسویں صدی کے شکاگو کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود آپ ابھی تک عرب کے صحرا نشین چرواہوں سے زیادہ پسماندہ ہیں، جنہوں نے سمندر کو بیچ میں خشک کرکے وہاں تک اپنی سلطنت بڑھادی ہے۔آپ اپنے ایک شہر کے نکاسی کا مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ میری اس ملک کے صاحبانِ امر سے یہ گذارش ہے کہ اگر ہتھیار بنانے سے کچھ رقم بچ جاتی ہو، تو ازراہِ کرم اسے اس ملک و قوم پر لگایا کریں۔ اور اگر بات رقم کی نہ ہو بلکہ آپ کو مسائل کے حل کی سمجھ نہ ہو، تو اس کا بھی حل ہے۔ 2016ء میں چین نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے اپنے چھے لاکھ طلبہ کو دنیا کی بہترین جامعات میں بھیجا، تاکہ یہ طلبہ وہاں کچھ نیا سیکھ سکیں۔ اگر چین جیسا ترقی یافتہ ملک ابھی تک دنیا سے سیکھ رہا ہے، تو آپ بھی اسی پر عمل کریں اور دنیا سے سیکھیں۔ اپنے طلبہ دنیا کے بہترین جامعات میں بھیجیں، تاکہ یہ وہاں سے سیکھ کر اپنے ملک کے مسائل کے حل کے لیے وسائل تلاشیں۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔