ہر لفظ اک تلوار ہے

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا
لگتا ہے کسی آوارہ منش کا دل ہوگا۔ جو اپنے لیے کچھ بھی بچاکر رکھنے کا قائل نہیں ہوگا۔ جو ملالٹا دیا۔ اگر کسی تاجر پیشہ کا دل چیرا ہوتا، تو یقینا کچھ نہ کچھ ذخیرہ ضرور ملتا۔ دکان داری آدمی کو کسی نہ کسی حد تک ذخیرہ اندوزی سکھادیتی ہے، لیکن ایک صحت مند دل تو دریا دل ہی ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے لیے کچھ بچا کر رکھنے کا خیال کرنے لگتا ہے، تو ڈوب جاتا ہے بلکہ پوری کشتی ہی ڈوب جاتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس شعر میں جس دل کی تصویر کشی کی گئی ہے، وہ پوری تن دہی سے اپنی ذمے داریاں پوری کرتا رہا ہے۔ شاعر کا الزام بے بنیاد ہے۔ اس نے ایک ذمے دار اچھے کارکن کو برے لفظوں میں یاد کیا ہے۔
شاعروں کا تو شروع سے ہی یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اچھوں کو برا کہتے ہیں اور بروں کو اچھا۔ دراصل وہ قلم کی طاقت منوانا چاہتے ہیں۔ وہ اندر ہی اندر اس بات پر پھولے نہیں سماتے کہ اپنی قوت گفتار سے وہ سونے کو مٹی اور مٹی کو سونا ثابت کرسکتے ہیں۔ اس لیے وہ زندگی بھر پاگلوں کو فرزانوں پر فوقیت دیتے رہتے ہیں۔ قیس اور فرہاد فارسی اور اردو شاعری میں مثالی عاشقوں کے طور پر پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ حالاں کہ دونوں ہی دماغی طور پر ہلے ہوئے تھے اور کسی دماغی اسپتال میں بھیجے جانے چاہیے تھے۔
قیس کو صحراؤں کے سردے کا بخار چڑھا ہوا تھا۔ شاید اسی لیے وہ لیلیٰ کو دن رات ایسی جگہوں میں تلاش کرتا رہا۔ جہاں لیلیٰ تو کیا کسی بھی انسان کا ملنا نا ممکن تھا۔ اگر فرہاد کو پتھریلے راستوں دودھ کے مٹکے خالی کرنے کا مرض تھا۔ تو ان دونوں سے ہم دردی کی جاسکتی تھی۔
افسوس ہے کہ اس وقت ایران و عرب میں دماغی امراض کا کوئی معیاری اسپتال موجود نہیں تھا، ورنہ ان دونوں کی ذہنی مرمت کرکے انھیں از سر نو کار آمد بنایا جاسکتا تھا۔ شاعروں نے ان کے انتہائی نجی مسائل کو خوب خوب اچھالا اور بجائے اس کے کہ ان کے قصوں کو عبرت ناک واقعات کی شکل میں پیش کیا جاتا، تاکہ آنے والے وقتوں میں لوگ ان سے سبق حاصل کرتے اور آئندہ ایسے پاگل پن سے خود کو دور رکھتے، انھوں نے اپنے زورِ بیان کا سکہ بٹھانے کے لیے ان قصوں کو قوس قزح کے رنگوں سے اتنا سجایا کہ پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں گدگدی ہوتی رہتی ہے۔ فرہاد اور مجنوں کا نام سن کر نوجوانوں کا جی للچاتا ہے۔ یہ ہے الفاظ پر قدرت کا کمال، کہ اب اس طرح کے پاگل پن کو آئیڈیل سمجھا جاتا ہے۔ آوارگی اور لاابالی پن کو بہت سے لوگ زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت سے اس کا دور پار کا بھی تعلق نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگ شاعری کو محض شاعر کی کج ذہنی کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ وہ صدق دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس ایسی باتیں نہیں کرسکتا۔ ایک لحاظ سے ان کا یہ خیال بہت غلط بھی نہیں ہے، اس لیے کہ پاگلوں کی تعریف تو پاگل ہی کرسکتا ہے۔
اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ لفظ ایک صوتی ارتعاش کا نام نہیں ہے بلکہ یہ انسان کے پاس موجود مؤثر ترین ہتھ یاروں میں سے ہے، اس کا استعمال بے سوچے سمجھے نہیں ہونا چاہیے۔ جیسے آدمی ہوا میں تلوار چلارہا ہو۔ بلکہ ہر بات یہ سوچ کر کرنی چاہیے کہ یہ ایک اہم کام ہے جس سے پورا نقشہ بدل سکتا ہے اور انسانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ الفاظ کے مؤثر استعمال سے طوفانوں کا رخ موڑ دیا گیا۔
کوئی بھی جنگ جیتنے کے لیے ہتھ یاروں کا صحیح استعمال نہایت ضروری ہے۔ اسی لیے الفاظ کو نہ تو شاعروں کی طرح قلعی گری کرکے سجانا اچھا ہے اور نہ ہی انھیں سیاست دانوں کی طرح کھوٹے سکوں میں بدلنا خوب ہے کہ جہاں چاہا۔ بے سوچے اچھال دیا۔