اسلام، دینِ رحمت

انسان بنیادی طور پر معاشرتی حیوان ہے۔ یہ ایک معاشرے میں پیدا ہوتا ہے ۔ پیدائش کے وقت جب کہ یہ بالکل کمزور ، ضعیف اور لاچار ہوتا ہے اور اس کی زندگی کا انحصار دوسروں کی دیکھ بھال اور حفاظت کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی خدمت، نگہداشت، زندگی اور نشو و نما کے لیے دو ایسے خادم پہلے سے تقرر کیے ہوئے ہوتے ہیں، جو اس سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ اس پر جان چھڑکتے ہیں۔ اس کے لیے دن اور رات کا آرام تج دیتے ہیں۔ اس کو صحت مند اور ہنستا مسکراتا ہوا دیکھ کر پھولے نہیں سماتے۔ اس کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ اس کی ذرا ذرا سی ضروریات اور خواہشات کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ انتظام خالقِ کائنات اللہ رب العالمین نے انسانیت کی بقا، تحفظ اور نسلِ انسانی کی افزودگی اور بڑھوتری کے لیے اپنی قدرتِ کاملہ سے کیا ہے۔ یہ چھوٹا سا بچہ ایک خاندان کے زیرِ سایہ محبت و شفقت کے ماحول میں پروان چڑھتا ہے۔ گھر کے اندر ماں جیسی شفیق ہستی اس کی دیکھ بھال کرتی ہے اور باپ ہر قسم کی سختی اور تکلیف اٹھا کر اس کے لیے آرام و راحت کا ہر سامان مہیا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا ہر لحاظ سے خوش و خرم رہے۔ وہ اس کے لیے خوبصورت بیوی کی تلاش میں شروع ہی سے سرگرداں اور سرگرمِ عمل رہتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹے کی شادی ہو۔ بہو گھر آجائے اور اس کو اپنی زندگی کی آخری خوشی اور مسرت ملے۔ اسی طرح باپ بیٹے کو معاشرے میں ایک کامیاب، معزز اور ممتاز مقام دلانے کے لیے زمین آسمان ایک کرکے اس کی بہتر سے بہتر تعلیم کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے لیے اپنی جمع پونجی خرچ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے تعلیمی اور دیگر اخراجات کے لیے باپ دادا کی ہڈیوں تک کو بیچ دیتا ہے، لیکن ان تمام کد و کاوش کے بعد جب بیٹا جوان، شادی شدہ، صاحبِ حیثیت اور معاشرے میں ممتاز مقام حاصل کر لیتا ہے، تو ماں باپ بوڑھے لاچار اور ضعیف ہو چکے ہوتے ہیں۔ زیادہ عمر اور بڑھاپا یا بذاتِ خود بیماریوں کی پوٹ ہوتا ہے۔ ان کو قدم قدم پر مدد و تعاون، میٹھے بول اور بیٹے کی توجہ درکار ہوتی ہے، اور وہ بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ ہمارے عمر بھر کا سرمایہ اور ناز ونعم سے پالا ہوا بیٹا اس ضعف اور کمزوری کے دوران میں ہمارا سہارا بنے گا۔ خدمت اور نگہداشت کرے گا۔
قارئین، اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ عظیم الشان میں اپنی عبادت و اطاعت کے بعد جو دوسرا حکم دیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان کا رویہ اختیار کرو۔ ان کی طبیعت کی بے اعتدالی کی وجہ سے اگر تم کو کچھ ذہنی کوفت محسوس ہو، تو ان کے سامنے اُف تک نہ کرو اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ ’’اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما، جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔‘‘ لیکن آج کل جو ماحول ہے۔ دینی اور اخلاقی لحاظ سے انسان اور خاص کر نئی نسل جس زوال و انحطاط کا شکار ہے۔ اس کی وجہ سے بوڑھے والدین سے لاپروائی، عدم التفات اور ان کی دیکھ بھال سے غفلت کا رویہ عام ہے، بلکہ اب تو بات اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ آدمی اپنی تمام معاشرتی ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو مبرا اور لاتعلق سمجھتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ میں ہر لحاظ سے خود کفیل ہوں۔ میری ہر ضرورت پوری ہو رہی ہے۔ میرا معاشرے میں ایک مقام ہے۔ میں محفوظ و مامون ہوں۔ مجھے کیا کہ دوسرے کس حال میں ہیں؟ میں کیوں کسی کی فکر کروں؟ میں کیوں اپنا مال دوسروں پر خرچ کروں؟ یہ رشتے ناتے یہ صلۂ رحمی کے احکام یہ دوسروں کے کام آنے کے فضائل یہ تو پرانے دور اور فرسودہ معاشرے کی جاہلانہ اقدار و روایات ہیں۔ میں کیوں ان کی پروا کروں؟ ایسے میں تو پھر معاشرتی زندگی کی ذمہ داریاں ادا کرنا تو دور کی بات ہے۔اپنے وہ محبت و شفقت کے پیکر بوڑھے ماں باپ بھی بوجھ محسوس ہونے لگتے ہیں۔ ان کو غیر ضروری اور بوجھ سمجھ کر دیکھ بھال سے غفلت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ ان کو ’’اولڈ ہاؤس‘‘ میں داخل کرانے اور بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ شقاوتِ قلبی یہ خود پرستی اور یہ اپنے عیش و عشرت کو زندگی کا مقصد و محور سمجھنا اس بات کی علامت ہے کہ انسان کا تعلق اپنے مہربان رب سے ٹوٹ چکا ہے۔ اس کے مہربان رب نے اس کو زندگی گزارنے کے لیے جو لائحہ عمل اور ضابطۂ حیات کتابِ ہدایت قرآن کی شکل میں دیا ہے۔ یہ اس سے دور جا پڑتا ہے۔ اس کی آنکھیں مغربی تہذیب و ثقافت کے چکا چوند سے چندھیا گئی ہیں۔ یہ اپنا عقیدہ و نظریہ، طر زِ حیات اور اقدار و روایات بھول چکا ہے اور دورِ حاضر کے کلمہ ’’لاالہ الا الانسان‘‘ پر ایمان لاچکا ہے۔ ورنہ انسان کے معنی اور مطلب ہی یہ ہے کہ اس میں انسیت ہوگی۔ یہ اپنے ابنائے جنس سے مانوس ہوگا۔ اس کے دل میں اپنے ابنائے جنس کے لیے محبت و شفقت، ہمدردی اور غم خواری ہوگی۔ رحمتِ عالم اور ہادیِ اعظم کی زندگی انسانیت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ وہ وقت جب مکہ شہر میں آپ کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کیا گیا۔ ساحر، کاہن، کاذب اور اپنے آبائی دین کا کافر قرار دیا گیا۔ ایک دن ایک ضعیف بوڑھی عورت اپنی پوٹلی اٹھائی جارہی تھی۔ آپ نے اس کو دیکھا، تو اس کا بوجھ اس سے لے کر اس کے ساتھ چلنے لگے۔ اس سے پوچھا اماں جان کہاں جا رہی ہو؟ بوڑھی عورت نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شہر میں ایک ایسا جادوگر، ساحر بیاں شخص آگیا ہے، جو لوگوں کو اپنے آبائی دین سے بر گذشتہ کرتا ہے۔ اس لیے اس کے شر سے بچنے کے لیے یہ شہر چھوڑ کر کہیں اور جارہی ہوں۔ جب بوڑھی عورت کی منزل مقصود آ پہنچی، اور آپؐ نے اس کا سامان اس کے حوالے کیا، تو اس نے کہا کہ اس معاشرے میں ضعیفوں کے ساتھ مدد و تعاون کرنے والے تو ناپید ہیں، تم کون ہو؟ جس نے میرے ساتھ اس ہمدردی کا مظاہرہ کیا، تو آپؐ نے فرمایا۔ ’’اماں جان، مَیں وہی شخص ہوں جس کی شر کے خوف سے آپ اپنا آبائی مسکن چھوڑ کر جارہی ہیں۔‘‘ جھوٹا پروپیگنڈا ایک دم باطل ہوگیا اور بوڑھی عورت آپ کے کریمانہ اخلاق سے متاثر ہو کر ایمان لائی۔
قارئین، اسلام دینِ رحمت ہے۔ انسانوں کو جوڑتا ہے۔ شفقت و محبت اور رحمت و مودت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام کا یہ انداز اتنا مرتب، مربوط اور تمام انسانیت کے لیے۔ اس کا آغاز فطری طور پر اپنے گھر، قریبی رشتوں سے پھیل کر علاقے ملک و قوم اور پوری انسانیت تک جا پہنچتا ہے۔ جس وقت مدینہ منورہ میں مدنی ریاست قائم ہوئی۔ اس وقت سے انسانوں کے درمیان بغض و عداوت اور دشمنی ختم ہوگئی۔ اسلام سے پہلے مدینہ میں اوس اور خزرج قبیلوں کے درمیان طویل جنگ بعاث برپا ہوئی تھی، جس میں سیکڑوں افراد دونوں طرف سے مارے گئے تھے، لیکن اسلام ہی نے اوس و خز رج کو عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر بھائی بھائی بنا دیا۔ وہ مشرک قبائل جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ اسلام کا کلمہ پڑھ کر یک جان و یک رنگ اور ایک دوسرے کے محافظ بن گئے۔ اسلام کی بنیاد عقیدے اور نظریے پر ہے، جس نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت ، رسولوں کی رسالت اور یوم آخرت کے عقیدے کو قبول کیا۔ پھر ان میں کوئی فرق و امتیاز باقی نہ رہا۔ یہاں پر حبش کا بلال بھی خادمِ رسولؐ اور مؤذنِ رسولؐ کا اعزاز پاتا ہے۔ ایران کا مسلمان بھی مجلس شوریٰ کا معزز ممبر بن کر اکابرینِ اسلام میں شامل ہوتا ہے۔ برسبیل تذکرہ، جب کسی نے حضرت سلمان فارسیؓ سے ان کا نسب پوچھا، تو آپ نے بڑے فخر سے جواب دیا کہ ’’سلمان ابن اسلام۔‘‘ یہاں روم کا صہیب بھی اجنبی نہیں۔ دین اسلام اگر گھر کے محدود دائرے میں بھی نافذ ہو، تو پورے گھر کو خیر و برکت، اتحاد و اتفاق ایک دوسرے کا ہمدرد و غم خوار اور مراتب کے لحاظ سے ادب و احترام کا گہوارہ بنا دیتا ہے۔ چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی عزت اس دین کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہاں پر غیر رشتہ دار بزرگوں اور بڑوں کو بھی احترام اور عزت سے نوازا جاتا ہے، لیکن آج کل جو عملی صورتِ حال ہے۔ اس میں مغربی طاغوتی تہذیب و ثقافت کے اثرات سرایت کرجانے کی وجہ سے ہر چھوٹا بڑا اپنے آپ کو بڑی ہستی گردانتا ہے، اور دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ذرا ذرا سی بات پر رنجشیں، کدورتیں اور آپس کی ناچاقی کا ماحول عام ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑے اور دھینگا مشتی، قتال و جدال تک پہنچتی ہے۔ کہاں اسلام کا یہ حکم کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے اختلاف اور رنجش کی بنیاد پر تین دن سے زیادہ قطع کلامی نہ کرے۔ اور کہاں ہمارا طرزِ عمل کہ اللہ کے گھر میں ایک امام کے پیچھے ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر پانچ وقت نماز کے دوران میں صف میں کھڑے ہو کر بھی ایک دوسرے کے ساتھ مانوس نہیں ہوتے۔ نہ ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرتے ہیں۔ نہ ایک دوسرے کے مشکلات و مسائل جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ کا معمول تھا کہ اگر کوئی شخص مسجد سے غیر حاضر ہوتا، تو اس کے بارے میں دو طرح کے گما ن کیے جاتے کہ یا تو بیمار ہیں اور یا نفاق کے مرض میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ اسلام میں بیمار پرسی اور مریض کی عیادت کا بہت زیادہ اجرو ثواب بیا ن کیا گیا ہے۔ ہر مسلمان کو تاکید کی گئی ہے کہ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کے چار حقوق ہیں۔ سلام کا جواب دینا، اگر کسی کو چھینک آئے، تو ’’یرحمک اللہ‘‘ کہنا کہ اللہ تجھ پر رحم فرمائے، اگر بیمار ہو، تو عیادت کرنا۔ اور جب فوت ہو جائے، تواس کی نماز جنازہ میں شریک ہونا۔
حقیقت یہ ہے کہ دینِ اسلام ہی ہمارے تمام قومی اور ملی، انفرادی اور اجتماعی بیماریوں کا علاج ہے۔ لیکن ہماری بد بختی اور شقاوت کی انتہا ہے کہ ہم نے اس نسخۂ شفا کو نظر انداز کرکے غیروں کے خود ساختہ فلسفوں اور نظریوں کو سینے سے لگا رکھا ہے۔
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اسلام تو ہمیں دنیا کی امامت و قیادت عطا کرتا ہے اور ہم ہیں کہ ابلیس کے چیلوں کے پیچھے مقتدی بن کر ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔

…………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔