سیاسیات پر قلم اٹھانے سے احتراز ہے، مگر کچھ موضوعات پر نہ لکھنا حق گوئی سے انکار کے مترادف سمجھتا ہوں۔ کسی زمانے میں شعرا، ادیب اور قلمکار ہی مزاحمت کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ پاکستانی شعرا میں شاعرِ عوام یعنی حبیب جالبؔ کے بعد کوئی مزاحمتی شاعر پیدا نہ ہوسکا جس نے
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
جیسے اشعار لکھے۔ انہوں نے جمہوری آمروں کے خلاف
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
جیسے لاثانی اشعار لکھ کرخود کو امر کر دیا ہے۔ آج بھی ہر جمہوری اور غیر جمہوری آمر کے خلاف مخالفین فقط جالبؔ ہی کے اشعار کا سہارا لیتے ہیں۔ جیسا کہ شہباز شریف بہت شوق سے
ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
مَیں نہیں مانتا، مَیں نہیں جانتا
کسی زمانے میں شوق سے گنگناتے، یہ الگ بات ہے کہ مملکتِ خداداد میں کسی نہ کسی شکل میں تقریباً 30 سال تک حکمرانی کرنے والے شریف خاندان نے بھی اس دستور کو حقیقی، عوامی بنانے اور عملی کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا، وگرنہ جالبؔ کے اشعار گنگنانے کی نوبت نہ آتی۔
بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج قلم کاروں، ادیبوں اور شعرا کی اکثریت فقط بادشاہِ وقت سے "واہ واہ” سننے کے لیے تیار بیٹھی ہے اور وہ موضوعات جو حقیقت سے وابستہ ہیں، سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئی ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی ہے، تجاہلِ عارفانہ ہے یا "تجاہلِ غافلانہ!” اسے کچھ بھی کہیں، آپ کی مرضی۔ کیوں کہ مولانا فضل الرحمان جو ملکی مذہبی سیاست کی قد آور شخصیت ہیں، نے جس طرح آج "مذہب برائے سیاست” کے عمل کو فروغ دیا ہے، اس پر کوئی کچھ لکھتا ہے اور نہ کہتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر مولانا محترم کی سیاست شناسی کا اعتراف ہے، مگر حالیہ پارلیمان سے باہر رہنے کی بدولت مولانا صاحب نے سیاست کو جس مذہبی رنگ میں رنگنے کا عمل شروع کیا ہے، کیا اس میں ملک کی بقا ہے؟ مولانا کی پارٹی کے سابقہ ممبر قومی اسمبلی اور سینیٹر سے اس حوالے سے پوچھا گیا، تو محترم نے "پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ” کا حوالہ دے کر اپنے ملین مارچ کے لیے سند فراہم کی۔
قارئین، جو بھی ہے مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ مولانا کے حالیہ بڑے بڑے جلسے جو "تحفظِ ناموسِ رسالتؐ” کے نام پر کیے گئے، اور ان جلسوں میں صرف موجودہ حکومت کی برائیوں کو طشت ازبام کیا گیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس وقت ملک میں قانونِ ختمِ نبوتؐ یا ناموسِ رسالتؐ کا کون سا مسئلہ چل رہا ہے جس نے مولانا کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا ہے؟ ہرذی شعور کا جواب ہوگا کہ کوئی بھی نہیں۔ البتہ حکومت کے خلاف کسی کو بھی احتجاج کا حق ہے مگر اپنے احتجاج کو دین، عقیدے، مسلک اور مذہب سے نتھی کرنا، مذہب کے نام پر عوام کو مشتعل کرکے نظامِ ریاست کو مفلوج کرنا اور فقط ذاتی مفادات کے حصول کے لیے دین کو سیاست کی نذر کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ہم دیکھ چکے ہیں کہ "تحریکِ نظامِ مصطفیٰ” تھی یا ضیاء الحق کی اسلامائیزیشن، ملاکنڈ ڈویژن میں سابقہ تحریکِ نفاذِ شریعت کا معاملہ تھا، یا پھر ملک بھر میں تحریکِ طالبان پاکستان کا اندازِ فکر و عمل، ہر ایک نے فقط اسلام کی بدنامی ہی کے اسباب پیدا کیے ہیں۔ اس کے بعد حالیہ تاریخ میں مشہورِ زمانہ "فیض آباد دھرنا” جس کا مقصد اسلام کی خدمت تھی، یا پھر ذاتی مقاصد کا حصول؟ عرض یہ ہے کہ کیا پاکستان اس وقت مذہبی سیاست کا متحمل ہوسکتا ہے؟ میرا ماننا بلکہ سیاسی عقیدہ ہے کہ سیاست دین کے ماتحت ہونی چاہیے، کیوں کہ بقولِ اقبال
جلالِ پادشاہی ہو، کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے، تو رِہ جاتی ہے چنگیزی
لیکن سیاست برائے دین ہو، تو قابل تحسین بات ہے، مگر دین برائے سیاست! اس پر ہر ایک کو سوچنا ہوگا کہ اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے "ناموسِ رسالتؐ” جیسے حساس موضوع کا سہارا لینا لائقِ تحسین عمل ہے؟ یہ کام عمران خان نے اگر کیا تھا، تب بھی غلط تھا، اب اگر مولانا کر رہا ہے، تو بھی غلط ہے۔ خدارا، اپنی سیاست کے لیے ہمارے مقدس اسلام کو تو بدنام نہ کریں، جس کا مقصد ہی سلامتی اور امن ہے۔ اسلام میں انتشار اور بدامنی کا کوئی جواز نہیں۔ کیا کریں، مگر کوئی حبیب جالبؔ آج کل ہے نہیں، جو اسلام کے ساتھ اس ظلم پر اشعار کہے۔ کیوں کہ عصری شعرا اور قلم کار، بادشاہِ وقت کی مدح سرائی میں مصروف ہیں۔ اگر معاملہ ایسا چلتا رہا، تو جو آگ لگے گی وہ پھر ہمہ گیر ہوگی۔ بقولِ راحت اندوری:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
لہٰذا محترم مولانا کو سوچنا چاہیے کہ اگر بدامنی پھیلی، تو کیا ہوگا آپ کی سیاست کا؟ سیاست، بادشاہت اور حکمرانی کے لیے امن شرط ہے، اور امن کے لیے بقائے باہمی کا اصول۔
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔