ماہ ِ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ:۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورۃ الفجر آیت نمبر دو) میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے ’’وَالْفَجْرِ وَلَےَالِ عَشْرٍ‘‘ جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔
٭ حج کا اہم رکن:۔ وقوف عرفہ اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم کو حاصل کرنے کا دن ہے۔ غرض رمضان کے بعد ان ایام میں اُخروی کامیابی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ لہٰذا اس میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کریں۔ اللہ کا ذکر کریں۔ روزہ رکھیں۔ قربانی کریں۔ احادیث میں ان ایام میں عبادت کرنے کے خصوصی فضا ئل وارد ہوئے ہیں جن میں سے چند احادیث ذکر کررہا ہوں: حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کوئی دن ایسانہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔‘‘ (بخاری )
حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ سے زیادہ عظمت والے دوسرے کوئی دن نہیں ہیں۔ لہٰذا تم ان دنوں میں تسبیح وتہلیل اور تکبیر وتحمید کثرت سے کیا کرو۔ (طبرانی)
ان ایام میں ہر شخص کو تکبیر تشریق پڑھنے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، تکبیر تشریق کے کلمات یہ ہیں: اَللّٰہُ اَکْبَرُاَللّٰہُ اَکْبَرُلَا اِلٰہ الَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر اللّٰہُ اَکْبَر وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔
٭ قربانی کرنے والا ناخن اور بال نہ کاٹے یا کٹوائے:۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’جب ذی الحجہ کا مہینا شروع ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے، تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ (مسلم)
اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں قربانی کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔ لہٰذا اگر بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے کی ضرورت ہو، تو ذی القعدہ کے آخر میں فارغ ہوجائیں۔
٭ عرفہ کے دن کا روزہ:۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔‘‘ ( مسلم)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا نو ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کریں۔
(وضاحت): اختلافِ مطالع کے سبب مختلف ملکوں میں عرفہ کا دن الگ الگ دنوں میں ہو، تو اس میں کوئی اشکال نہیں۔ کیوں کہ یومِ عیدالفطر، یوم عید الاضحی، شب قدر اور یومِ عاشورہ کے مثل ہر جگہ کے اعتبار سے جو دن عرفہ کا قرار پائے گا، اُس جگہ اُسی دن میں عرفہ کے روزہ رکھنے کی فضیلت حاصل ہوگی، ان شاء اللہ! اگر کوئی شخص دو دن روزے رکھنا چاہیے، تو بہتر ہے۔ ایک حجاج کرام کے حساب سے نویں تاریخ کو اور دوسرے دن اپنے ملک میں نویں تاریخ کو۔
٭ قربانی کی حقیقت:۔ قربانی کا عمل ہر امت کے لیے رہا ہے جیساکہ فرمان باری تعالی ہے: ہم نے ہر امت کیلئے قربانی مقرر کی، تاکہ وہ چوپائیوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔ (سورۃ الحج 34)
لیکن حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنتِ ابراہیمی کہا جاتا ہے، اور اسی وقت سے اس کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی۔ چناں چہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم قربانی کی یاد میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضورِ اکرمؐ کی اتباع میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، جو قیامت تک جاری رہے گی، ان شاء اللہ! اس قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری میں اپنی جان ومال ووقت ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔ حضوراکرمؐنے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی پیش فرمائی تھی جس میں سے 63 اونٹ کی قربانی آپؐ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے کی تھی، اور بقیہ 37 اونٹ حضرت علیؓ نے نحر (یعنی ذبح) فرمائے۔ (مسلم، حجۃ النبیؐ)
یہ حضور اکرمؐکے ارشاد (ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں) کا عملی اظہار ہے اور اس عمل میں اُن حضرات کا بھی جواب ہے جو مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر کہہ دیتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی کے بجائے غریبوں کو پیسے تقسیم کردیے جائیں۔ اسلام نے جتنا غریبوں کا خیال رکھا ہے، اس کی کوئی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی، بلکہ انسانیت کو غریبوں اور کمزوروں کے درد کا احساس شریعتِ اسلامیہ نے ہی سب سے پہلے دلایا ہے۔ غربا و مساکین کا ہر وقت خیال رکھتے ہوئے شریعت اسلامیہ ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم عید الاضحی کے ایام میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم قربانی کی یاد میں اپنے نبی اکرمؐ کی اتباع کرتے ہوئے قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، جیسا کہ ساری انسانیت کے نبی حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کسی کام میں مال خرچ کیا جائے، تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ (سنن دار قطنی، سنن کبری للبیہقی)
اِن دِنوں بعض حضرات نے باوجویکہ کہ انہوں نے قربانی کی سنتِ مؤکدہ اور اسلامی شعار کا مؤقف اختیار کیا ہے۔ 1400 سال سے جاری و ساری سلسلہ کے خلاف اپنے اقوال و افعال سے گویا یہ تبلیغ کرنی شروع کردی ہے کہ ایک قربانی پورے خاندان کے لیے کافی ہے اور قربانی کم سے کم کی جائے جو سراسر قرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہے۔ کیوں کہ حضور اکرمؐ کے اقوال وافعال کی روشنی میں امتِ مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ان ایام میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنی چاہیے۔ دیگر اعمالِ صالحہ کی طرح قربانی میں بھی مطلوب ومقصود رضائے الٰہی ہونی چاہیے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا سب اللہ کی رضامندی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (سورۃ الانعام 162)
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اُن کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (سورۃ الحج 37)
٭ قربانی کی اہمیت وفضیلت:۔ حضور اکرمؐ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران میں) آپؐ قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی ۔ابواب الاضاحی)
غرض یہ کہ حضورا کرمؐ نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران میں ایک مرتبہ بھی قربانی ترک نہیں کی۔ باوجود یہ کہ آپؐ کے گھرمیں بوجۂ قلت طعام کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتا تھا۔ ایک مرتبہ صحابۂ کرامؓ نے حضور اکرمؐ سے سوال کیا: یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔‘‘ صحابۂ کرام نے عرض کیا: ’’ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ حضور اکرمؐنے ارشاد فرمایا: ’’ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! اون کے بدلے میں کیا ملے گا؟‘‘ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اون کے ہر بال کے بدلے میں (بھی) نیکی ملے گی۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی، باب ما جاء فی فضل الاضحیہ)
حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کسی کام میں مال خرچ کیا جائے، تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ (سنن دار قطنی باب الذبائح، سنن کبری للبیہقی ج9 ص 261)
٭ قربانی واجب ہے:۔قربانی کو واجب یا سنتِ مؤکدہ قرار دینے میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آ رہا ہے، مگر پوری امتِ مسلمہ متفق ہے کہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے، اور جو شخص قربانی کرسکتا ہے اس کو قربانی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ خواہ اس کو واجب کہیں یا سنتِ مؤکدہ یا اسلامی شعار۔ حضور اکرمؐ مدینہ منورہ میں ہمیشہ قربانی کیا کرتے تھے، باوجودیہ کہ آپؐ کے گھر میں اشیائے خوردنی نہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی مہینے تک چولہا نہیں جلتا تھا۔ 80 ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں قربانی کو واجب قرار دیا ہے۔ حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد ابن حنبلؒ کی ایک روایت بھی قربانی کے وجوب کی ہے۔ ہندوپاک کے جمہور علما نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے۔ کیوں کہ یہی قول احتیاط پر مبنی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے۔ قربانی کے وجوب کے لیے متعدد دلائل میں سے چند پیش خدمت ہیں: ٭ اللہ تعالیٰ قرآن کریم (سورۃ الکوثر) میں ارشاد فرماتا ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ اس آیت میں قربانی کرنے کا امر (یعنی حکم) دیا جا رہا ہے اور امر عموماً وجوب کے لیے ہوا کرتا ہے، جیساکہ مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے۔ علامہ ابوبکر جصاصؒ(ولادت 305ھ) اپنی کتاب(احکام القرآن) میں تحریر کرتے ہیں: حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت (فَصَلِّ لِرَبِّکَ) میں جو نماز کا ذکر ہے اس سے عید کی نماز مراد ہے اور (وَانْحَرْ) سے قربانی مراد ہے۔ مفسر قرآن شیخ ابوبکر جصاص ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: ایک، عید کی نماز واجب ہے۔ دو، قربانی واجب ہے۔
٭ حضورِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ، باب الاضاحی ہی واجبہ ام لا، مسند احمد ج2 ص 321، السنن الکبری ج 9 ص 260 کتاب الضحایا) وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر آپؐ نے سخت وعید ارشاد فرمائی اور اس نوعیت کی سخت وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ قربانی کرنا واجب ہے۔
٭ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا: ’’جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا، تو اسے چاہیے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (عید کی نماز سے پہلے) ذبح نہیں کیا، تو اسے چاہیے کہ وہ (عید کی نماز کے) بعد ذبح کرے۔ (بخاری، باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد) حضور اکرمؐ نے عیدالاضحی کی نماز سے قبل جانور ذبح کرنے پر دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا۔ حالاں کہ اُس زمانہ میں صحابۂ کرام کے پاس مالی وسعت نہیں تھی۔ یہ قربانی کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔
٭ قربانی کس پر واجب ہے:۔ ہر صاحب حیثیت کو قربانی کرنی چاہیے جیساکہ حدیث میں گزراکہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ حضور اکرمؐ کے اس فرمان سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قربانی کے وجوب کے لیے صاحبِ وسعت ہونا ضروری ہے۔ البتہ مسافر پر قربانی واجب نہیں، جیسا کہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں۔ (المحلی بالآثار لابن حزم ج 6 ص 37)
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔