وزیر اعظم عمران نے جمعہ کے روز مولانا طارق جمیل کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات میرے مطابق اس وجہ سے اہم تھی کہ اس سے ایک روز پہلے پشاور میں مولانا نے ناموسِ رسالتؐ کے نام سے ایک ملین مارچ سے خطاب کیا تھا، جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنوں نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔ اسے آپ ایک طرح سے مولانا کی طاقت کا اظہار کہہ سکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو مولانا فضل رحمان پہلے سے عمران خان کے دورِ حکومت میں آسیہ بی بی کی رہائی کے حوالے سے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پر الزامات لگا چکے ہیں۔ اب عمران خان کے حالیہ امریکہ کے دورے کے بعد مولانا نے عمران خان کے بارے میں مزید الزامات لگائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور کے ملین مارچ میں لوگوں نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی اور دلہ زاک روڈ پر سات کلومیٹر تک مولانا فضل رحمان کا ملین مارچ چھایا رہا۔
قارئین، عمران خان امریکہ کے دورے کے موقعہ پر پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے گفتگو کے دوران میں آسیہ بی بی کی رہائی کا حوالہ دے چکے ہیں۔ اب مولانا ہر وقت ناموسِ رسالتؐ کے حوالے سے بات کرنے کے دوران میں عمران خان کو مسلسل اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا تے ہیں۔
پاکستان میں ناموسِ رسالتؐ اور توہینِ رسالتؐ کے قانون میں تبدیلی کے حوالے سے لوگ انتہائی حساس اور جذباتی ہیں۔ اس حوالے سے محض آسیہ مسیح سے ملاقات اور توہینِ رسالت کے قانون میں تبدیلی کی با ت پر پنجا ب کے سابقہ گورنر سلمان تاثیر کو اپنے ہی سیکورٹی گارڈ کے ہاتھوں قتل کیا جاچکا ہے۔
مولانا کے پشاور ملین مارچ کے ایک روز بعد وزیر اعظم عمران خان نے میری ذاتی رائے کے مطابق اس لیے مولانا طارق جمیل صاحب سے ملاقات کی، تاکہ مولانا فضل رحمان کی جانب سے کی جانے والی ’’دینی مہم جوئی‘‘ کا اثر زائل کرسکیں۔
ویسے تو عمران خان اپنی تقریروں میں مولانا فضل رحمان کے بارے میں بہت نڈر نظر آتے ہیں، لیکن میرے خیال میں وہ مولانا سے ڈ ر بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس وجہ سے مولانا فضل رحمان کے ملین مارچ کے اگلے روز انہوں نے سوشل میڈیا پر مولانا طارق جمیل کے ساتھ ملاقات کی تصویریں او ر ویڈیوز شیئر کیں۔
قارئین، دعوتِ تبلیغ سے وابستگی کی وجہ سے مولانا طارق جمیل کو پاکستان میں لاکھوں لوگ پسند کرتے ہیں اور دل سے ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے عمران خان کے خلاف مذہبی اور سیاسی بنیاد پر مولانا فضل رحمان کی تقریروں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مَیں ذاتی طور پر عمران خان اور طارق جمیل کی ملاقات کو انتہائی اہم سمجھتا ہوں۔
قارئین، تحریکِ انصاف اس سے پہلے خیبر پختونخوا میں مولانا سمیع الحق (مرحوم) کے حقانیہ مدرسہ کو صوبائی حکومت کی جانب سے انتہائی فراخ دلی سے فنڈنگ بھی کرچکے ہیں۔ وہ فنڈنگ بھی اس وجہ سے کی گئی تھی کہ مولانا فضل رحمان اس سے پہلے ہر وقت عمران خان پر یہودیوں کے ایجنٹ ہونے کے الزامات لگاتے تھے، مذکورہ فنڈنگ کی ایک وجہ شائد یہ بھی تھی کہ کچھ مولویوں کو عمران خان کے حق میں بات کرنے کے لیے راغب کیا جاسکے۔ اب اس ساری کہانی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستا ن میں کوئی بھی حکومت ایک بڑے مولانا کی حمایت کے بغیر چلنے میں جھجھک اور ڈر محسوس کرتی ہے۔ مولانا فضل رحمان نے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں ناموسِ رسالتؐ کے حوالے سے موجودہ حکومت کے خلاف مشترکہ اعلامیہ میں کچھ مواد ڈالنے کی بھی کوشش کی تھی، مگر بلاول بھٹو زرداری نے اس کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے یہ کہا تھا کہ مشترکہ اپوزیشن کو مذہبی بنیاد پر بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
قارئین، مولانا طارق جمیل صاحب اس سے پہلے بھی عمران خان صاحب سے کئی اور ملاقاتیں کرچکے ہیں، اور جب بھی ان دونو ں کے درمیان ملاقات کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں، تو اس حوالے سے مولانا طارق جمیل صاحب پر بھی سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے کڑی تنقید ہوتی ہے۔ بعض صارفین اس حوالے سے بڑے دلچسپ مزاحیہ اور طنزیہ تبصرے بھی کرتے ہیں۔ مَیں نے خود اپنے ایک مزاحیہ تبصرے میں یہ لکھا تھاکہ ’’شاید مولانا طارق جمیل اپنے آپ کو امریکہ کے دورے سے آگاہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کے پاس آئے ہیں۔‘‘
ایک اور سوشل میڈیا کے صارف نے میرے بلاگ کے نقطۂ نظر کے مطابق بڑا دلچسپ تبصرہ کیا تھا کہ "لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔”
………………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔