یہ جس صدی میں ہم جی رہے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ کتابوں کی آخری صدی ہے۔ بقولِ شاعر
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
اور مَیں اُن خوش نصیبوں میں سے ایک ہوں، جنہیں ’’کتابوں کی اصل صدی‘‘ کے آخر (1981ء) میں آنکھ کھولنے کا شرف حاصل ہوا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ مجھے اور برادرِ خورد اجمل کو چار چار آنے تھما کر سکول بھیجا جاتا تھا۔ اُن دِنوں غیر مجلد کتابیں مینگورہ شہر میں دکانوں کے تھڑوں پر آٹھ آنے اور مجلد یا قدرے بہتر ایک روپیہ کے عوض ملتی تھیں۔ دو روز بھوکا رہتا، تو غیر مجلد کتاب خریدنے کی سبیل نکل آتی۔ مگر دُکھ اس وقت ہوتا جب فرطِ شوق سے کتاب آدھ یا زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹا کے دورانیہ میں گھول کے پی جاتا اور پھر اگلی کتاب کے لیے دو دن مزید بھوکا رہنا پڑتا۔ عیدی ملتی یا پھر کوئی معرکہ انجام دیتا، تو ہی مجلد کتاب ہاتھ آتی۔ یادش بخیر! یہ اُس صدی کا قصہ ہے، جسے میں ’’کتابوں کی اصل صدی‘‘ مانتا ہوں۔
اکیسویں صدی کیوں کتابوں کی آخری صدی ہے؟ اس کا جواب جاننا ہو، تو جی ٹی روڈ مینگورہ پر دو چوکوں یعنی گلشن اور نشاط چوک کے درمیان صرف دو دکانوں کا جائزہ لیجیے، اندازہ ہوجائے گا۔ ایک دکان بڑی شان دار ہے۔ اندر جائیے، تو دوسرے ہی لمحے اے سی کی ٹھنڈی ہوائیں آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں۔ بڑے بڑے شو کیس ہیں جن میں خوبصورت جوتوں کی نمائش کی گئی ہے۔ اسی دکان سے قبلہ رُو دس پندرہ قدم کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی دکان بھی ہے۔ اس میں مختلف طاق لگے ہیں جن میں کتابیں پڑی ہیں۔ اولذکر دکان کوئی سال بھر پہلے تعمیر ہوئی ہے، جب کہ مؤخر الذکر چھتیس سال سے قائم و دائم ہے۔ دونوں دکانوں کا موازنہ کیجیے، تو اہلِ سوات کے مذاق کا ادراک ہوجائے گا۔ اور آپ بھی اس مشہور قول کا سہارا لیں گے کہ ’’جس قوم میں کتاب کسی دکان کے تھڑے اور جوتا شوکیس میں سجا ہوا ملے، تو اس قوم کو جوتے ہی کی ضرورت ہے(جسے اٹھاکے اس کے سر پر مارا جائے)۔‘‘
قارئین، پچھلی صدی میں ’’ڈسٹ آن بُک‘‘ جیسا کوئی ادارہ ملتا، تو مجھ جیسے کئی بچے کتاب خریدنے کی خاطر بھوکے نہ رہتے۔ چلئے، موقعہ کی مناسبت سے تھوڑی سی روشنی ’’ڈسٹ آن بُک‘‘ پر ڈالتے ہیں۔

اس ادارے کا قیام آج سے تین سال پہلے یعنی 2016ء کو عمل میں لایا گیا۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، ادارہ چلانے والوں کی خواہش ہے کہ کتابیں طاقوں میں سجی ہوئی نہ ہوں اور اس پر گرد کی تہہ نہ جمے۔ کتاب پڑھنے والوں کے ہاتھ میں ہو اور عوام الناس اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اس حوالہ سے کم از کم مجھے اور جہاں مَیں پڑھاتا ہوں، اس ادارے دونوں ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ سنہ 2016ء کو ’’ڈسٹ آن بُک‘‘ کا پہلا پروگرام دھوم دھام سے ایس پی ایس کالج میں منعقد ہوا۔ جس میں 100 سے زائد طلبہ کو کتاب بلامعاوضہ پڑھنے کو دی گئی۔ مجھے یاد ہے اُس وقت کتاب حاصل کرنے کی شرط یہ رکھی گئی تھی کہ پڑھنے کے بعد اسے دوسرے شخص کو دیا جائے گا، یعنی دیے سے دیا جلانا ہوگا۔ آج بھی اُن کتابوں میں سے اک آدھ کو کسی نوجوان طالب علم کے ہاتھ میں دیکھتا ہوں، تو ادارہ ’’ڈسٹ آن بُک‘‘ کی پوری ٹیم کو داد دیے بنا نہیں رہ پاتا۔
ایس پی ایس کالج کے بعد ان تین سالوں میں ’’ڈسٹ آن بُک‘‘ کی ٹیم سیکڑوں کتابیں عوام الناس تک پہنچا چکی ہے۔ جن کتب میلوں کا مجھے علم ہے ان میں خوشحال ماڈل سکول، انٹرنیشنل سکول آف کارڈوبا سوات، ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور، باچا خان ویک، پیوٹا ہال پشاور، سیدو میڈیکل کالج اور باچا خان برسی کے موقعہ پر ودودیہ ہال سوات میں کتابوں کا سٹال لگایا گیا ہے۔
رہی سہی کثر مذکورہ ادارے نے کتابوں کی اشاعت کا بیڑا اٹھا کر پورا کر دی ہے۔ مہنگی اور نایاب کتب ادارہ کے خرچے سے چھاپ کر لوگوں تک پہنچانے کا عظیم کام بھی اسی ادارے کی چھتری کے نیچے ہوتا ہے۔
قارئین، اتنا عظیم کام اور وہ بھی بغیر کسی مالی منفعت کیے۔جنہیں شک کرنا ہو، شوق سے کیجیے، کہ اس کے سوا اس ہجوم (جس پر کچھ لوگوں کو قوم کا گمان ہے) کا کام ہی کیا ہے۔ مَیں، موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذکورہ ٹیم کو لیڈ کرنے والے کا نام رقم کرنے جا رہا ہوں۔ موصوف فیاض خان ایک مزدور ہے۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر ’’مملکتِ خداداد‘‘ سے کوسوں دور اسٹریلیا میں مقیم ہے۔ ٹیم کے دیگر ممبران میں میرے شاگردِ خاص کامریڈ علی نعمان المعروف چینٹو، محمد سائل، ڈاکٹر حمزہ اسرار خان، ویدہ پشتنہ کاکڑہ اور ہاشم افغان ہیں۔ یہ تمام اٹھارہ سال سے لے کر تیس سال کی عمر تک نوجوان لوگ ہیں۔

یہ ٹیم کچھ جوانوں کو اپنے مندوبین کے طور پر بھی ساتھ رکھے ہوئی ہے، جن میں حسام قاضی، مظہر، ثناء اللہ مہمند (رپورٹر جی این این نیوز)، شہاب قربان، ہارون وقاص، حارث شیر، شاہ داد یوسف زئی، خضر وزیر، کاشف باچا، عطاء اللہ عطا اور ظفر اسلام قابلِ ذکر ہیں۔
کتابوں کی اس آخری صدی میں میرِ کارواں فیاض خان کے ساتھ ذکر شدہ تمام جوان اور نوجوان لائقِ تحسین و آفرین ہیں، جو پشتون بچوں کے ہاتھ میں کتاب دے رہے ہیں۔ یہ تمام عصرِ حاضر کے باچا خان ہیں۔ یوں تو ’’باچا خانی‘‘ کا نعرہ لگانے والے ڈھیر سارے ہیں، مگر اس پر پورا اترنے والے کم ہی ہیں۔ باچا خانی ہو، تو ان جیسی۔
جاتے جاتے گلزار صاحب کی اک نظم رقم کرتا چلوں اور ’’ڈسٹ آن بُک‘‘ کی پوری ٹیم کو ’’لال سلام!‘‘
نظم ملاحظہ ہو:
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں، تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اُگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول اور
مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے !
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔