زرعی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان، مگر……….!

(خصوصی رپورٹ) تحریک انصاف حکومت کی جانب سے سوات میں زرعی یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے، مگر حکومت نے اس یونیورسٹی کے لیے نئی اراضی کی بجائے سوات میں قائم جدید طرز سے زراعت کے میدان میں تحقیق کرنے والے ادارے ’’زرعی تحقیقاتی ادارہ‘‘ کو ختم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اسی عمارت میں یونیورسٹی کی کلاسز شروع کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں گذشتہ روز مینگورہ کے نواحی علاقے تختہ بند میں قائم زرعی تحقیقاتی ادارہ میں اہم بیٹھک ہوئی جس میں وزیرِ زراعت محب اللہ خان کے علاوہ سیکرٹری زراعت محمد اسرار خان، وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی پشاور ڈاکٹر جہان بخت خان، زرعی تحقیق کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نوید اختر اور ڈائریکٹر محمد ایاز خان اور دیگر متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بہار2020 ء میں زرعی یونیورسٹی سوات کی کلاسز کا اجرا ہوگا، تاہم ذرائع کاکہنا ہے کہ محکمۂ زراعت کی جانب سے زرعی تحقیقاتی ادارہ کی عمارت دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ بدیں وجہ حکومت کی جانب سے مسلسل دباؤ ڈالنے کی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں۔
سوات کی سول سوسائٹی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یونیورسٹی کے قیام سے ملاکنڈ ڈویژن کا سب سے بڑا ادارہ جو زراعت کے میدان میں تحقیق کرتا چلا آرہا ہے، بند ہوجائے گا۔ یوں سوات کے لاکھوں زمین داروں کی امیدیں دم توڑ دیں گی۔ زرعی تحقیقاتی ادارہ کے ممکنہ خاتمے کے خلاف سوات کی سول سوسائٹی نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اس ضمن میں بھر پور احتجاج کی دھمکی دی ہے۔
تختہ بند میں قائم مذکورہ زرعی تحقیقاتی ادارہ کو قائم ہوئے 55سال سے زائد کا عرصہ ہوا ہے۔ اس ادارہ کا قیام 60ء کی دہائی یعنی ریاستِ سوات کے دورمیں ہوا تھا۔ انضمام کے بعد 1980ء میں اس ادارہ کو سٹیشن کا درجہ ملا۔ 2007ء میں ایم ایم اے دورِ حکومت نے اس ادارہ کو اَپ گریڈ کرکے اس کو انسٹیٹیوٹ کا درجہ دیا۔
اس ادارہ کی اراضی 36 ایکڑ پر مشتمل ہے جس میں اس وقت 8 مختلف سیکشن کام کررہے ہیں۔ یہاں 160 سے زائد اہلکار تحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں گریڈ19 کے 7 اور گریڈ 18 کے 11 افسران زمین داروں کی مدد اور جدید طرز کی تحقیق کررہے ہیں۔ اسی ادارہ نے پھلوں، سبزیوں اور غلوں کے شعبوں میں تحقیقات کرکے مزید 60 نئی اقسام متعارف کرائی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوات اس وقت پھلوں کا گھر گردانا جاتا ہے، جب کہ سبزیوں اور غلہ جات کے میدان میں سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کا کوئی ثانی نہیں۔
اس انسٹی ٹیوٹ میں سالانہ ہزاروں زمین داروں کو تربیت بھی دی جاتی ہے۔ آئے روز کئی ایک زمین دار اور کسان اسی انسٹیٹیوٹ میں آکر ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں لیکن اب اس ادارہ کو تالے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سوات کی سول سوسائٹی کے بقول صوبائی حکومت کی جانب سے نئے ادارے کھولنے کے اعلانات تو ہورہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف حکومت اب تک سوات میں 9 سالوں سے زیرِ تعمیر سوات یونیورسٹی کی عمارت کو حتمی شکل تک نہ دے سکی۔ ابھی تک سوات یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ وطالبات کرایہ کی ایک نہیں دو نہیں بلکہ درجن بھر عمارتوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جہاں پر سہولیات کا فقدان الگ ہے۔ سوات کے عوامی حلقوں نے تبدیلی سرکار سے زرعی یونیورسٹی بھی کرایہ کی عمارت میں کھولنے اور اس کے لیے الگ زمین خریدنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ اس بات پر زور دیا ہے کہ زرعی تحقیقاتی ادارہ کو بند کرنے کا عمل حکومت کی طرف سے اہلِ سوات کے ساتھ زیادتی گردانا جائے گا۔