"بیان” عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ب، ی، ن ہے۔ لفظ "بیان” ایک اہم ادبی اصطلاح کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن یہ اپنے لفظی یا لغوی معنی بھی رکھتا ہے جس کے بارے میں مختلف لغات کی تفصیل یہ ہے:
1) فرہنگِ آصفیہ:۔ "بیان” عربی، اسم، مذکر:۔ صاف بولنا، سخن روشن، واضح آشکارا، تقریر، گفتگو وغیرہ۔ وہ علم جس میں تشبیہ، استعارہ، کنایہ وغیرہ کی مدد سے ایک معنی کو کئی طریق سے ادا کرسکیں۔
2) نوراللغات:۔ "بیان” عربی، فصاحت، زبان آوری، ظاہر:۔ مذکر، قول، مقولہ، تقریر، گفتگو، تفصیل، مقدمہ، معاملہ وغیرہ۔ وہ علم جس میں تشبیہ، مجاز، استعارے، کنایہ وغیرہ کی مدد سے ایک معنی کو کئی طریق سے ادا کرتے ہیں۔
3) المنجد (عربی، اردو) البیان (مصدر) فصیح گفتگو جو ما فی الضمیر کو ظاہر کرے۔
بانَ (ضمیر) باب ضَرَبَ یَضرِبُ، بَیْنًا و بُیُوناً و بُینونۃً۔ ظاہر ہونا، واضح ہونا (ب، ی، ن) صفت (بین و بائن)
4) اُردو لغت:۔ علمِ بیان، عربی (اسم معرفہ) وہ علم جس میں ایک معانی کو مختلف اور متعدد طریقوں سے ظاہر کرنے سے بحث کی جاتی ہے۔ اس علم کا موضوع ہے لفظ اور اس کے معانی اور اس کا مدار تشبیہ، استعارہ، مجازِ مرسل وغیرہ ہے۔
5) علمی لغت:۔ بیان (عربی،اسم،مذکر) قول، مقولہ، تقریر، گفتگو، اظہار، شہادت، تفصیل، مضمون وغیرہ۔ وہ علم جس میں تشبیہ اور استعارے کے ذریعے ایک بات کو کئی طریقوں سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
6) فرہنگِ اصطلاحاتِ علومِ ادبی:۔ علمِ بیاں، ظاہر کرنا، علومِ بلاغت میں سے ایک علم جس میں تشبیہ، استعارہ، مجاز، کنایہ وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے۔
7) جامع اللغات:۔ بیان، (عربی، مذکر) گفتگو، تقریر، قول، مقولہ، بات، تفسیر، تشریح، مضمون، فصاحت، صفائی وغیرہ۔ وہ علم جس میں تشبیہ، استعارے وغیرہ کے ذریعے ایک بات کو کئی طریقوں سے ظاہر کرتے ہیں۔ یہ علمِ بلاغت کی ایک شاخ ہے۔
8) نصابِ بلاغت:۔ علم بیان وہ علم ہے جس کے ذریعے ایک ہی معنی کو مختلف طریقوں سے ادا کیا جاسکے۔ علمِ بیان کا غرض ایک ہی معنی کو مختلف طریقوں سے ادا کرنا ہے۔ بقول انیس
اک شعر کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
علمِ بیان کا موضوع لفظ ہے۔ اس کے تحت چار چیزوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ تشبیہ، استعارہ، مجازِ مرسل اور کنایہ۔
9) البلاغۃ:۔ علمِ بیان ایسے چند اصول اور قواعد سے مراد ہے کہ جب انہیں ذہن میں مستحضر کرلیں، تو ایک معنی کو کئی طریق پر ادا کرسکیں۔ اس کامدار چار اصولوں پر ہے۔ تشبیہ، استعارہ، مجازِ مرسل، کنایہ۔
10) منتخب ادبی اصطلاحات:۔ بیان کے لغوی معنی ظاہر اور واضح ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں علمِ بیان سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعے ایک مضمون کو کئی طریقوں سے ادا کرنے کا ڈھنگ آجائے۔ ایک معنی دوسرے سے زیادہ دلکش اور واضح ہوں۔ اس کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ ’’علمِ بیان‘‘ وہ علم ہے جو مجاز (تشبیہ، استعارہ، مجازِ مرسل، کنایہ) سے اس طرح بحث کرتا ہے کہ اس پر حاوی ہونے کے بعد متکلم اپنے مفہوم کے ابلاغِ تام میں کامیاب ہوسکے۔
11) بحر الفصاحت:۔ علمِ بیان، یہ ایسے قاعدوں کا نام ہے کہ اگر ان کو جانے اور یاد رکھے تو ایک معنی کو کئی طریق سے عباراتِ مختلفہ ادا کرسکتا ہے۔ جن میں سے بعض طریق کی دلالت معنی پر، بعض طریق سے زیادہ واضح ہوتی ہے۔ علمِ بیان کا مداران چار چیزوں پر ہے۔ تشبیہ، استعارہ، مجاز مرسل، کنایہ۔
المختصر، علمِ بیان فنِ بلاغت کی وہ شاخ ہے جس میں ایک معنی کو کئی طریق پر ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس علم میں تشبیہ، استعارہ، مجاز مرسل، کنایہ کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے، جن پر آئندہ بحث ہوگی، اِن شاء اللہ!
…………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔