جس وقت تاجدارِ ہندوستان شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر دنیا میں امن و آشتی کا نعرہ لگائے ہوئے ایک مشترک دین کی تلقین کر رہا تھا اور آسمانِ آئین و دانش کے تارے ابو الفضل، فیضی، بیربل، راجہ ٹوڈرمل اور ملا مبارک اس کے نو رتن کے ماہِ پروین بنے ہوئے تھے۔ دنیا کی ہر ایک دولت قدموں میں تھی۔ ہر ایک فیروز مندی سرِ تسلیم خم کیے ہوئے تھی۔ عظمت و جلالت کا سکہ دلوں پر بیٹھا ہوا تھا، حتیٰ کہ دین و مذہب کی پابندیوں سے بے نیاز ہو کر ہر ایک شہسوار اور سورما شاہی درشن کے وقت زمین پر سجدہ ریزی شروع کر دیتا تھا، تو کس کو خیال تھا کہ یہ مذہب جس کی بنیادیں اس قدر مضبوط ہیں، ایسا فنا ہو جائے گا کہ تاریخ کی کتابوں میں بھی تفتیش و تحقیق کے بعد مشکل سے کچھ آثار مل سکیں گے۔
عزیزانِ من، بادشاہ اکبر جو اپنے زمانے کے مولویوں کو رازی اور غزالی سے بھی بہتر تصور کرتا تھا، لیکن جب بادشاہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان مولویوں سے بہت کچھ بے ہودگیاں ظاہر ہوئیں، اور باہم ایک دوسرے پر زبان کی تلواریں نکال کر ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگے، تو بادشاہ کے متاثر قلب پر ان کی یہ حرکت ناگوار گزری۔ ان کا یہ اختلاف اور چھچھورپن جب بادشاہ نے دیکھا، تو سامنے والوں پر غائب والوں کو قیاس کرکے سلف کا بھی منکر ہوگیا۔ اس لیے اب سلسلۂ تحقیقات میں اسلام کا نام تختہ سے کاٹ دیا گیا اور طریقہ یہ رہ گیا کہ مسلمانوں کے سوا جس شخص کی جو بات بھی پسند آجاتی، اس کا انتخاب کر لیا جاتا تھا۔ اور جو باتیں بادشاہ کی خواہش کے خلاف معلوم ہوتیں، ان سے احتراز اور پرہیز کو ضروری خیال کیا جاتا تھا۔ جس کسی کو اپنے اعتقاد کے موافق نہ پاتے وہ بادشاہ کے نزدیک مردود شمار ہوتا تھا۔ رواداری اور انصاف کا سارا دعویٰ انتہائی تعصب میں بدل گیا۔ اسی طرح بعض باتیں پارسیوں کی قبول کی گئیں اور نصرانیوں اور مجوسیوں کے بھی دین کے کچھ اجزا اس جدید مذہب میں شریک کر لیے گئے، لیکن سب سے زیادہ اس جدید مذہب پر ہندو مذہب کا اثر تھا۔ اگر بادشاہ اکبر کسی ایک مذہب پر مستقل قائم رہتا، تو اس کو دوسرے مذاہب سے ٹکرانا پڑتا تھا۔ اسی لیے اپنے دربار میں ہر مذہب کے علما کا اجتماع کرانا، مباحثے سننا یہ اس کی سیاست تھی۔ تاکہ ہر ایک مذہب کی توقعات اس سے وابستہ ہوں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اصلاح کی بجائے فساد کی طرف قدم بڑھایا اور ایک نئے مذہب کی تدوین کی، جس کا نام اس نے ’’دینِ الٰہی ر کھا۔
عہدِ اکبری اگرچہ مغل شہنشاہیت کا زمانہ تھا، مگر ملتِ اسلامیہ کو علمائے سو یعنی درباری مولویوں، روافض، ہندو اور عیسائی فتنوں نے گھیر رکھا تھا، اور یوں عہدِ اکبری مسلمانوں پر مظالم ڈھاتی ہوئی گزر گئی، اور جہانگیری عہد شروع ہوا۔ شہزادہ ’’نورالدین سلیم جہانگیر‘‘ اکبر کا بیٹا بھی تھا اور مرید بھی۔ اکبر کے خیالات جہانگیر کی فطرت میں داخل تھے، جو بے اختیار موقع بہ موقع رونما ہوتے تھے۔ جہانگیر اور اکبر دونوں ایک بنیادی غلطی میں مبتلا تھے، ان کے نزدیک اسلام وہ تھا جو ان کو اچھا لگتا تھا، مگر درحقیقت یہ خدا پرستی نہیں خود پرستی تھی۔ اسلام اطاعت ہے اور اطاعت میں عقل چلانا سرکشی ہے۔ ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بطلیموس جیسے عقل و فکر کے لوگ دنیا میں آئے۔ ہر ایک نے نوع اِنسان کی بہبود و فلاح کا راستہ دریافت کرنا چاہا، مگر وہ کامیاب نہ ہوئے اور ان کی نمائشی دانش و حکمت نے انبیا علیہم السلام کی پاک تعلیمات کو بھی مکدر کر دیا۔ اسی لیے فاطرِ ہستی نے آخری پیغام قرآنِ کریم میں واضح اعلان کر دیا: ’’نہیں نہیں، تیرے رب کی قسم، وہ مومن نہیں جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان تمام امور میں حکم نہ مان لے جن کے بارے میں ان کے آپس میں اختلاف ہو۔‘‘(النسا آیت 65)
عزیزانِ من، آئینِ اکبری کو پامال کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سرزمینِ ہند کے اس نام نہاد مسلمان فرماں رواؤں کی ملحدانہ اور تاریک دور میں پنجاب کے ’’سرہند‘‘ نامی ایک گاؤں میں فاروقی شیوخ کے ایک خاندان کے ہاں 14 شوال 971 ہجری کو تجدد و تنور کا آفتاب طلوع کیا۔ جس سے علم و عرفان کی اجڑی ہوئی بستی پھر آباد ہونے لگی۔ رشد و ہدایت کے خزاں زدہ گلشن نے فصلِ گُل کی تیاری کی۔ نام مبارک ’’احمد‘‘ تجویز ہوا، مگر علم و کردار کی بدولت ’’شیخ احمد سرہندی امام ربانی مجدد الف ثانی‘‘ قرار پائے۔ تحصیلِ علم کے بعد آپ آگرہ تشریف لے گئے، اور بہ سلسلۂ درس و تدریس چند ماہ آگرہ میں قیام کیا۔ وہاں آپ کے حلقۂ درس نے بہت جلد اتنی شہرت پالی کہ ابو الفضل اور فیضی جیسے اپنے زمانے کے مشہور اور خودپسند ماہرینِ منطق و فلسفہ بھی آپ کی زیارت کے مشتاق ہوئے۔
آگرہ میں قیام سے مجدد صاحب کو ان تمام سرچشموں کا علم ہوگیا تھا جن سے اکبری فتنہ کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ یہ ممکن تھا کہ آپ ابتدا ہی سے انقلابِ سلطنت کی صورتیں سوچتے اور کامیابی کی جدوجہد کرتے، مگر مجدد صاحب کو اپنے لیے سلطنت مطلوب نہ تھی اور دوسرے کو سلطان بنانے میں وہی دشواری درپیش ہوتی۔ اسی لیے انقلابِ سلطنت کی بجائے نظریاتِ سلطنت کی تبدیلی کو آپ نے زیادہ مفید تصور کیا۔ حضرت مجدد صاحب کے طریقِ کار کی ترتیب کچھ اس طرح تھی کہ سب سے پہلے غیر سرکاری سنجیدہ طبقہ کی اصلاح اس کے بعد ارکانِ دولت کی اصلاح اور اس کے بعد بادشاہ کی اصلاح۔ لہٰذا مذہبی نقطۂ نظر نیز مسلم حکومت کی بقا و تحفظ کے پیشِ نظر اصلاح کے معنی صرف یہ تھے کہ ’’عوام الناس، اراکین دولت اور سلاطین طے کر لیں کہ انفرادی طور پر اتباعِ سنت اور اجتماعی طور پر ترویجِ شریعت ان کی زندگی کا نصب العین اور ان کی تمام اجتماعی و انفرادی جدوجہد کا محور ہیں۔‘‘ اس کے لیے مجدد صاحب نے آگرہ سے واپسی کے بعد سرہند میں قیام فرمایا اور درس و تدریس، تلقین و ارشاد کا سلسلہ جاری کردیا۔ چند سالوں کے بعد بندگانِ خدا میں سے ایک بڑی جماعت مجدد صاحب کے حلقۂ بگوش ہوگئی۔ اور یوں باقاعدہ ایک منظم جماعت تیار کرکے سنجیدہ طبقہ کی اصلاح کے لیے ہر شہر و دیار میں ایک ایک خلیفہ بھیج دیا۔ ان کو بہت سی اصلاحی باتیں لکھ کر دیں اور ایک کتاب جمع کی جس کا نام ’’مکتوبات‘‘ رکھ دیا گیا۔ انہی مکتوبات کے چند اقتباسات پڑھ لینے سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شیخ کیسی مجددانہ طرز سے ایک ایک بدعت کی تردید کرتے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کے اتباع کو ہی فلاح و سعادت قرار دیتے ہیں۔
آپ مکتوب 110، جلد اول میں فرماتے ہیں: ’’وظائفِ بندگی کو ادا کرنا اور حقِ تعالیٰ کی جانب ہمیشہ اور ہر وقت متوجہ رہنا پیدائشِ انسان کا مقصود ہے۔ یہ بات صرف اسی وقت پیدا ہوتی ہے کہ سنت سید الاولین و الآخرین کی ظاہراً و باطناً ہر طرح سے پوری پوری اتباع کی جائے۔
اہلِ تصوف کی اصطلاح کے لیے مکتوب 112 جلد اول میں فرماتے ہیں: ’’کشف و الہام کی صحت کا معیار علمائے اہلِ سنت کے علوم وتحقیقات ہے اگر کوئی کشف ان علوم سے بال برابر مخالف ہے، وہ دائرہ صواب سے خارج ہے۔ یہی علمِ صحیح اور حقِ صریح ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہے گمراہی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ جماعتِ صحابہ سے بغض رکھنے والوں پر ضربیں لگاتے ہوئے مکتوب 66 جلد اول میں فرماتے ہیں: ’’کافر کی صحبت سے بدعتی کی صحبت کا فساد بڑھا ہوا ہے۔ تمام بدعتیوں میں سے بدتر بدعتی جماعت وہ ہے جو صحابۂ کرامؓ سے بغض رکھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود ان کو کافر فرماتے ہیں، لیغیض بہم الکفار!‘‘
عزیزانِ من، یہاں یہ بات ذہن نشین کیجیے کہ آج جو لوگ صحابہ کے خلاف بھونکتے ہیں، ان کے بڑے بھی اسی پر کاربند تھے اور افسوس تو ان لوگوں پر ہے جو خود کو اہلِ سنت سمجھتے ہیں، لیکن اپنے چچازاد بھائیوں کو خوش کرنے کے لیے وہ بدبخت لوگ امیرِ معاویہ جیسے جلیل القدر صحابی کو ’’ڈکٹیٹر‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کا وزیرِاعظم بھی صحابۂ کرام کے لیے صحیح الفاظ کے انتخاب تک کو ضروری نہیں سمجھتا۔
بہرحال ہم اپنے موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ چناں چہ مجدد صاحب کی درس و تدریس کی بدولت جہانگیر کے دربار کے جتنے ممتاز رکن تھے، سب شیخ کے حلقہ بگوش ہوگئے۔ ان اراکینِ حکومت میں خانِ خاناں، خانِ جہاں، خانِ اعظم، خواجہ جہاں، مرزا داراب، قلیج خان اور نواب سیدفرید وغیرہ سرفہرست تھے۔ حکومتِ جہانگیری کے تمام سنی ارکان، امرا، حکام و جرنیل مجدد صاحب کی تحریک کے اعضا و اراکین تھے، لیکن پھر بھی مجدد صاحب نے علمِ بغاوت بلند نہیں کیا۔ کیوں کہ شیخ اپنے لیے حکومت کے خواہاں نہیں تھے، بلکہ حکومت کی اصلاح ان کا نصب العین تھا اور مسلمان بادشاہوں کی خانہ جنگی اس وقت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر مجدد صاحب جہاد بالسیف کا اعلان کرتے، تو یہی مقربین کہہ سکتے تھے کہ حکومت حاصل کرنے کا ایک ڈھونگ رچایا گیا ہے اور مجدد صاحب کے دعوائے اصلاح کو بھی وہی اصلاح تصور کرتے جس کو ’’ابراھیم لودھی‘‘ کے مقابلہ میں’’بابر‘‘ نے اور ’’ہمایوں‘‘ کے مقابلہ میں ’’شیر شاہ سوری‘‘ نے کیا تھا۔ ویسے بھی اس وقت ہندوستان میں شیعہ پارٹی برسرِ اقتدار تھی۔ کیا کوئی شک ہو سکتاتھا کہ ملکہ نور جہاں کی امداد کے لیے ایرانی قزلباش دندناتے ہوئے ہندوستان پہنچ جاتے۔
مجدد صاحب نے امرا اور حکام کو جو تلقین و ارشاد، تزکیہ اور اصلاح یا دیگر علمی مباحث سے متعلق جتنی بھی خطوط بھیجے، وہ ’’مکتوبات‘‘ میں موجود ہیں۔ ان مکاتیب میں انہی امراؤں کے اعمال پر محاسبہ بھی ہے اور تنبیہات بھی، اور عقائد باطلہ یا فاسد خیالات کی تردید قوت اور صفائی کے ساتھ کی گئی ہے۔ اسی طرح مجدد صاحب نے حکومتِ جہانگیری کے اکثر ارکان، امرا اور جرنیلوں کو حلقہ بگوش کرکے ایک مضبوط بلاک بنا لیا جس میں اہلِ سنت کے علاوہ حکومت کے اکثر و بیشتر منصب دار بھی شامل تھے۔ اس بلاک کا سر رشتہ مجدد صاحب کے ہاتھ میں تھا جسے آپ موقع بہ موقع حرکت دے رہے تھے۔ لیکن مجدد صاحب کی یہ کامیابی ’’نور جہاں‘‘ اور اس کی پارٹی کے لیے خطرناک تھی۔ چوں کہ نور جہاں اپنے داماد ’’شہریار‘‘ کو تختِ جہانگیری پر جلوہ افروز دیکھنا چاہتی تھی۔ اس کے برخلاف مذہب پرستی اور سنی مسلک ہونے کی وجہ سے مجدد صاحب کے پورے گروپ کو قدرتی طور پر ’’شاہجہاں‘‘ سے وابستہ کر رکھا تھا۔ ردِ روافض کے متعلق مجدد صاحب کی جد و جہد اور بیباکانہ جرأت نے اس پارٹی کو اور بھی زیادہ نور جہاں کی نظروں میں مقہور و معتوب کردیا تھا۔ اسی طرح ایک ناکارہ سازش کے تحت مجدد صاحب کی کتابوں میں تحریف کرکے کفریہ عبارتوں کا اضافہ کیا گیا، اور کئی نقلیں مرتب کرکے ملک کے بڑے علما سے فتاویٰ طلب کیے گئے اور ’’شیخ عبد الحق محدث دہلوی‘‘ جیسے علما سے بھی مجدد صاحب کے خلاف رسالے تحریر کیے گئے۔ لہٰذا فرصتِ وقت کو غنیمت جان کر یہ مکتوب اور فتاویٰ بادشاہ جہانگیر کے سامنے پیش کر دیے گئے۔ بادشاہ رنجیدہ ہوا اور مجدد صاحب کو اپنے پاس طلب کرکے ان مکتوبات کے بارے میں استفسار کیا، لیکن مجدد تو مجدد زماں تھے، انہوں نے ایسے جوابات دیے کہ بادشاہ مطمئن ہوگئے۔ ان رافضیوں کے لیے یہ شکست ناقابلِ برداشت تھی۔ اب انہوں نے دوسری صورت اختیار کی اور بادشاہ سے کہا کہ مجدد نے ہزاروں جاں نثار مرید اپنے گرد جمع کیے ہوئے ہیں۔ خطرہ ہے کہ ملک میں کوئی فتنہ کھڑا نہ کردیں۔ ان کی نیت بھی خراب ہے اور سجدہ تحیت جو بادشاہ کے لیے جائز مانا جاتاہے، یہ اس کے بھی منکر ہیں۔ اس سے پہلے بھی شاہی احترام سے کنارہ کیا اور آپ آئندہ بھی امتحان فرما لیجیے۔ وہ دربار میں حاضر ہو کر سر نہیں جھکائے گا۔ اسی طرح کی چند عبارتیں توڑ مروڑ کر پیش کی گئیں اور کچھ فتاویٰ نظرِ سلطان سے گزارے، جن میں عبد الحق محدث دہلوی کے تردیدی مضامین بھی تھے۔ مجدد صاحب جب دوسری مرتبہ دربار پہنچے، تو درباری ادب آموزوں نے شاہی آداب بجا لانے کی ہدایت کی۔ جب تخت بوسی یا سجدہ کی فرمائش کی گئی، تو مجدد صاحب نے سختی سے انکار کیا۔ بلآخر طویل بحث و مباحثہ کے بعد اور چوں کہ بادشاہ کو تو پہلے ہی سے سبق پڑھایا گیا تھا، مجدد صاحب کو قید کرنے کا حکم دیا گیا۔ جہانگیر نے قید و بند پر اکتفا نہیں کی، بلکہ دولت کدۂ مجددی کو بھی لوٹنے کا حکم دیا۔
جب مجدد صاحب قلعہ گوالیار پہنچے، تو وہاں ہزاروں قیدی اور بھی تھے جن کی حالت نہایت ابتر تھی۔ مجدد صاحب نے جاتے ہی اصلاح کا کام ہاتھ میں لیا۔ غیرمسلم قیدیوں کو اسلام کی دعوت دی اور مسلمان قیدیوں کو نماز اور عبادات پر ثابت قدم کرکے انہیں تسبیح و استغفار پر لگایا، اور ان کے عقائد کی اصلاح کی۔
مجدد صاحب نے زمانۂ قید و بند میں کبھی بادشاہ کے لیے بددعا نہیں کی، بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر بادشاہ مجھ کو جیل خانے نہ بھیجتے، تو اتنی کثیر تعداد میں لوگ دینی فوائد سے کیسے بہرہ ور ہوتے؟ اور خانِ خاناں، خانِ جہاں،صدرِ جہاں وغیرہ، جو مجدد صاحب سے عقیدت مندی اور ارادت مندی کے ساتھ حکومت کے سر اور خان بہادر بھی تھے، ان کے لیے مجدد کا یہ ابتلا و امتحان کس قدر پیچیدہ مسئلہ تھا، مگر مجدد کی مجددانہ درس و تعلیم نے اس کو کس قدر آسانی سے حل کیا۔ ان کے خلوصِ ارادت مندی اور جوشِ عمل میں اور اضافہ کردیا۔ جہانگیر نے مکر و فریب غرور وغیرہ کا جو الزام آپ پر لگایا تھا، اس کا عملی جواب دیا۔مجدد صاحب نے کہا کہ صبر اور نماز کے ذریعے سے مدد حاصل کرو۔ بے شک نماز خدا کا بتایا ہوا وہ طریقہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی توجہ حاصل ہوتی ہے۔
دوسری طرف پرچہ نویس جو عموماً ہر ایک چیز کو بادشاہ تک پہنچا دیا کرتے تھے، انہوں نے مجدد صاحب کے حالات، خیالات، عزائم اور ارادوں کو جہانگیر تک پہنچایا۔ اب جہانگیر یقینا حیران ہو گیا کہ جس شخص کو مکار، مغرور، خود پسند، کافر اور مرتد بنایا گیا تھا، خود اس کے پرچہ نویس اس کے پیکرِ صدق و صفا، مجسمۂ اخلاق اور اسلامی کمالات کی جیتی جاگتی تصویر قرار دے رہے ہیں، اور جس کی قوتِ ایمانی نے جیل خانے میں پہنچ کر ازلی ڈاکوؤں، چوروں اور بدمعاشوں کو بھی صداقت و ہدایت کے رنگ میں رنگ دیا۔ وہ کافر، بے دین جن کی زندگی ظلم و جفا، ایذائے خلق اللہ اور امنِ عامہ کی تباہی و بربادی میں گزری تھی، جن کو جیل خانے کی سخت سے سخت تکلیف بھی رام نہ کرسکی تھی، صرف ایک سال کے عرصے میں وہ سب حلقہ بگوشِ اسلام اور راستی و راست بازی کے حریص نظر آ رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر بادشاہ جہانگیر اپنے فعل پر نادم ہوا۔ بادشاہ کی آدھی پارلیمنٹ تو پہلے ہی سے مجدد کے حلقہ بگوش ہوچکی تھی، اب بادشاہ نورالدین سلیم جہانگیر بھی شیخ احمد سرہندی کے گرویدہ ہوگئے اور شیخ کو اپنے پاس طلب کرکے بہت زیادہ اکرام و احترام سے پیش آیا۔ بہت کچھ معذرت کی اور مجدد صاحب سے اس قدر محبت کرنے لگا کہ کسی وقت بھی مجدد کی جدائی گوارا نہ کرتا تھا۔ اپنے بیٹے ” شہزادہ خرم (شاہجہان) کو مجدد کے حلقہ مریداں میں داخل کردیا۔
چناں چہ شاہجہان اور عالمگیر کے زمانے تک بادشاہ اور جملہ وزرا سلسلۂ مجددیہ کے حلقہ بگوش ہوتے رہے۔ مجدد نے اپنے صاحبزادوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ اب یہ پورا علمی گھرانہ پورے لشکر کی تبلیغ و تلقین میں مشغول ہوگیا۔ مجدد کی بادشاہ کے ساتھ خاص صحبت رہتی تھی اور بادشاہ سے اصولِ اسلامیہ کے متعلق باتیں کرتے اور قرآن وسنت کی تعلیم دیتے تھے۔ مجدد صاحب کی برکت سے اسی سال ’’قلعہ کانگڑہ‘‘ کی فتح میسر ہوئی، جس پر جہانگیر نے بہت زیادہ مسرت کا اظہار کیا اور سجداتِ شکر ادا کیے ۔ کیوں کہ یہ ایسی فتح تھی جو گذشتہ 1000 سال کی طویل مدت میں کسی شاہِ اسلام کو میسر نہ آئی تھی۔ ہر ایک بادشاہ اس کی فتح کی تمنا کرتا تھا۔ مجدد صاحب کے شاگردوں اور دیگر علمائے اسلام کو لے کر جہانگیر نے قلعہ کانگڑہ کو فتح کیا اور وہاں اذان، نماز، خطبہ وغیرہ شعائرِ اسلام جاری کرائے، مسجد بنوائی اور شعائرِ اسلام کے اجرا پر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا۔
عزیزانِ من، مجدد صاحب نے آئینِ اکبری پامال کرکے ایسی فضا پیدا کر دی کہ جہانگیر کے بعد شاہجہان اور عالمگیر اپنی کامل دین داری کے ساتھ تقریباً ایک صدی تک حکومت کرتے رہے، اور اکبری دورِ حکومت کا وہ داہنا بازو جو تقریباً 70 سال برسرِ اقتدار رہ کر حکومت کے رگ و ریشہ میں اپنا تسلط جما چکا تھا، آج اس نے اس طرح شکست کھائی کہ نہ شاہجہان کا بال بیکا کرسکی اور نہ عالمگیر کا۔ نہ حکومت میں ہندؤوں کا حصہ ختم کیا گیا تھا، نہ شیعوں کو حکومت سے خارج کردیا گیا تھا اور نہ عیسائیوں کی آمد بند ہوگئی تھی، بلکہ اکبری فتنہ کا ہر عنصر موجود تھا مگر صرف ایک تریاق نے تمام زہریلے جراثیم کو ختم کردیا تھا۔ درحقیقت یہ ہے وہ کامیابی جو مجدد کی مجددیت کی روشن دلیل ہے۔
بادشاہ اکبر کے عہد کے اختتام اور عہد جہانگیری کے اوائل میں کیا ہندوستان علما و مشائخ سے بالکل خالی ہوگیا تھا؟ کیسے کیسے اکابر موجود تھے، لیکن مفاسد وقت کی اصلاح و تجدید کا معاملہ کسی سے بھی نہ بن پایا۔ صرف مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ہی تنِ تنہا اس کاروبار کے کفیل ہوئے۔ مجدد نے لا مذہب اکبر کے بیٹے جہانگیر کو مذہبیت میں متوسط، شاجہان کو مذہبیت میں پختہ اور عالمگیر کو مذہبیت میں پختہ اور خالص مجددی بنا دیا۔ یوں ایک صدی تک مجددی طرزِ حکومت ہندوستان پر قائم رہی۔
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔