"بینہ” اک علمی و ادبی مجلّہ

’’بینہ‘‘ دراصل زِک پہاڑ کا نام ہے، جو سوات کی دو تحصیلوں چارباغ اور خوازہ خیلہ کو ملاتا ہے۔ سطحِ سمندر سے اس کی لمبائی 8000 فٹ ہے، جب کہ چوڑائی تو میلوں پر محیط ہے۔ کہتے ہیں اس کے سات رُخ (چہرے) ہیں۔ جس پہلو سے بھی دیکھو ایک جیسی شکل ہی دکھاتا نظر آتا ہے۔ اس کے پیندے میں بہت سے چھوٹے بڑے گاؤں آباد ہیں۔ مشرقی گاؤں بناجر، شین کڈ اور توہا سے اگر ہم گھوم کے مغرب کی طرف آئیں، تو روڑیا، دکوڑک اور گلی باغ جیسے بڑے گاؤں بھی اس نے اپنے پیندے ہی میں آباد کررکھے ہیں۔ بالکل مغرب کی سمت والا پہلو نسبتاً سر سبز و شاداب، ہرا بھرا اور کمیونٹی گیم ریزو کے لیے بھی مختص ہے۔ جو میرے گاؤں عالم گنج کی شاملات پر محیط ہے۔ راقم بھی اس کی ملکیت میں کچھ حصہ دار ہے۔ تھوڑا سا آگے بڑھیں، تو لنڈے، وکیل آباد اور کرم ڈھیری سے ہوتے ہوئے گاشکوڑ نامی گاؤں کو بھی یہ پہاڑ اپنا اِک رُخ دکھا کر بانڈئی کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اس رُخ کی چوٹی پہ بھی سدا بہار درختوں کے جھنڈ ہیں۔ اگلا رُخ خوازہ خیلہ کا ہے۔ مزید شمالاً گھوم کر مشرق کی سمت بڑھیں، تو بابو، چمتلئی اور بہار جیسے خوبصورت گاؤں بھی اسی پہاڑ کے پیندے میں آباد ہیں۔ اس دیو ہیکل پہاڑ کی چوٹی کا نظارہ ٹوپ سین، آسمانی موڑ اور ضلع شانگلہ کے بل کھاتے موڑوں سے اور بھی دلکش نظر آتا ہے۔ اس کی چوٹی پہ اپریل تک برف پڑی رہتی ہے۔ بہار کی آمد پہ جب برف پگھلنے لگتی ہے، تو مرغانِ چمن، جنگلی تیتر اور چکور کی آوازیں سماعت میں رس گھولنے لگتی ہیں۔
’’بینہ‘‘ کی چوٹی پہ اِک بزرگ ’’بینے بابا‘‘ کا مزار بھی ہے۔ بھلے وقتوں میں خواتین وہاں زیارت اور منت کے لیے بھی جایا کرتی تھیں۔ وہاں اک گھوڑی والا ملنگ بھی رہتا تھا، جو 2009ء کے حالات میں اپنی کوٹھڑی ہی میں مارٹر گولہ لگنے سے جل بھن کر سڑگیا۔ اُس کی گھوڑی کا کیا بنا؟ کچھ معلوم نہیں۔ اس حوالے سے مزید معلومات پروفیسر روزی خان کے انگریزی مضمون سے لی جاسکتی ہے۔ یہ تھی ’’بینہ‘‘ کی اِک جغرافیائی تمہید۔
گورنمنٹ ڈگری کالج خوازہ خیلہ، جس نے 2017ء ہی میں سٹارٹ لیا ہے اور بہت سی مشکلات کے باوجود کامیابی کی جانب بڑھ رہا ہے، جس میں وہاں کے پرنسپل سید شہاب الدین اور اس کی ٹیم کی شبانہ روز محنت شامل ہے۔ ٹیم تبھی کام کرتی ہے جب لیڈر محنتی، مخلص اور پُرعزم ہو۔ ماشاء اللہ پرنسپل سے سٹاف ہی نہیں طلبہ بھی مطمئن اور مسرور ہیں۔ اس کالج کے مختصر عرصے میں ’’بینہ‘‘ نامی علمی و ادبی مجلے کا اجرا بھی آپ کی شبانہ روز محنت ہی کا نتیجہ ہے، جس میں پروفیسر روزی خان، پروفیسر بخت زمین، پروفیسر محمد سعید اور پروفیسر محمد ساجد کے علاوہ ثاقب نعیم، اعزازاللہ اور کامران اقبال جیسے طلبہ کی محنت بھی شاملِ حال ہے۔
جس طرح جہانزیب کالج کے رسالے کا نام ’’ایلم‘‘ جیسے مشہور پہاڑ سے ماخوذ ہے، اسی طرح مٹہ کالج کے رسالے کا نام ’’ماندور‘‘ بھی وہاں کے مقامی پہاڑ ہی کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ بعینہٖ ’’بینہ‘‘ بھی اسی تسلسل کی اِک کڑی ہے، جسے پروفیسر روزی خان نے کمیٹی میں پیش کیا اور بہت سے ناموں میں اس نام پر اتفاق کیا گیا، جو ہر کسی کو قبول بھی ہے۔

"بینہ” علمی و ادبی مجلّہ، گورنمنٹ ڈگری کالج خوازہ خیلہ، سوات (فوٹو: تصدیق اقبال بابو)

روزی خان صاحب نے اپنے انگریزی مضمون میں ’’بینہ‘‘ اور ’’بینے بابا‘‘ کی تاریخی قدامت پہ خوب روشنی ڈالی ہے۔ زندگی رہی، تو میں اس کا اردو ترجمہ اخباری کالم کی شکل میں سامنے لانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ سرِدست ’’بینہ‘‘ رسالے پہ اتنا ہی کہوں گا کہ یہ اک خوش آئند قدم ہے۔ نونہالانِ وطن، جو ہمارے مستقبل کا اثاثہ ہیں، اُنہیں تعلیمی ادارے ہی میں نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے کا موقع ایسے ہی رسالوں کی مدد سے مل سکتا ہے۔ اس موقع سے انہیں بھرپور فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ رسالہ تین زبانوں میں طلبہ کو اپنے جمالیاتی ذوق کی تشنگی بجھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ شعبۂ اردو میں اگر پروفیسر بخت زمین اور پروفیسر عبداللہ جیسے اردو کے پاریکھ موجود ہیں، تو انگریزی میں پروفیسر روزی خان اور ہر فنِ مولا پروفیسر محمد سعید جیسے انٹلیکچول بھی موجود ہیں۔ جب کہ پشتو والی شاخ کے لیے پروفیسر محمد ساجد جیسے شہد اور گھی کے گھڑے سے بڑھ کر بھلا اور کون شخص موزوں ہوسکتا ہے؟
اس پہلے اور تاریخی مجلے میں نمونے کے طور پر اساتذہ نے بھی مضامین لکھے ہیں لیکن زیادہ موقع طلبہ ہی کو دیا گیا ہے۔ پروفیسر بخت زمین نے اپنے مضمون ’’قندِ مکرر‘‘ میں اردو اور فارسی اشعار کے باہم مشترک مضامین کو یکجا کیا ہے۔ پروفیسر عبداللہ نے ’’ادب اور اس کی اہمیت‘‘ سے پردے سرکائے ہیں، تو دوسرے ہی مضمون میں ادیبوں کے ایسے لطیفے لکھ ڈالے ہیں کہ پڑھنے پہ باچھیں چرکے کانوں سے جا لگتی ہیں۔ طالب علموں میں کامران اقبال کا مضمون اپنے پرنسپل کی محبت میں گُندھا دکھائی دیتا ہے جب کہ ثناء اللہ، نواب علی اور محمد جمیل کے مضامین مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ ثاقب نعیم نے قائد اعظم کے متعلق مشاہیر کے اقوال کو یکجا کیا ہے، تو منصور نے پہیلیوں، سلمان نے سائنسی کرشموں اور وحید عالم نے شگوفوں کا گلدستہ پیش کرکے اس بزم کو چار چاند لگائے ہیں۔ اس طرح حصۂ نظم میں غزلیں اور نظمیں تو اپنی جگہ موجود ہیں ہی۔
حصۂ پشتو میں پروفیسر ساجد نے ’’حافظ الپورئی‘‘ کے علاوہ ’’دستار ادبی تنظیم‘‘ کی خدمات اور کار ہائے نمایاں پہ خوبصورت مضامین لکھے ہیں۔ جب کہ سہیل خان نے علاقائی رسم و رواج کے ساتھ ساتھ معروف شاعر حنیف قیسؔ کا انٹرویو بھی رسالے کی زینت بنایا ہے۔ حضرت بلال نے کالج کے پہلے دن کی یادیں جمع کی ہیں، تو حفیظ اللہ صیاد نے ’’شلیدلے سادر‘‘ نامی پشتو افسانہ لکھا ہے۔ نواب علی نے اپنی زبان سے محبت کا اظہار اپنے مضمون میں کیا ہے، تو ثناء اللہ نے دلچسپ سوال و جواب بھی لکھے ہیں۔ یوں حصۂ نظم میں غزلوں اور نظموں کا گلستان اپنی الگ سی بہار دکھلاتا نظر آتا ہے۔
تیسرا حصہ انگریزی کے لیے مختص ہے، جس میں پروفیسر روزی خان نے ’’بینہ‘‘ کی تاریخی اہمیت پر خوبصورت مضمون لکھا ہے۔ پروفیسر محمد سعید جو میرے دوست کے دوست ہونے کے ناتے میرے بھی دوست ہیں، نے لکھا ہے کہ اس مجلے میں ہر قاری اور لکھاری کے لیے اس کی مرضی کا ذائقہ موجود ہے۔ وحید عالم اور شفیع اللہ نے سوات کے متعلق مضامین لکھے ہیں جب کہ ذاکر اللہ نے ’’خوازہ خیلہ شہر‘‘ کے متعلق مضمون لکھا ہے۔ نیز ذیشان احمد نے ’’پاکستان کی آزادی‘‘ کی مختصر کہانی کو انگریزی کا جامہ پہنایا ہے۔ حضرت بلال، کاشف قمر، فرحان عالم اور حفصہ عمر نے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ حصۂ نظم میں بھی انہی طلبہ نے اپنا زورِ بازو آزمایا ہے۔
مجلے کا گیٹ اَپ، انتہائی خوبصورت اور ملائم کاغذ والا ہے۔ جب کہ اندرونی مواد بھی بے حد دل کش اور متاثرکن ہے۔ نیز جا بجا رنگین تصویری جھلکیاں بھی اس کی دلکشی کو مزید دو آتشہ بناتی ہیں۔
مَیں اس کامیاب قدم پہ کالج کے پرنسپل اور اس کی ساری ٹیم کو مبارک باد اور خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ یقینا یہ خوبصورت رسالہ ہر لائبریری اور طلبہ کے سرہانے تلے موجود ہونا چاہیے۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔