وزیر اعظم پاکستان کا 21 جولائی کو امریکہ کا سہ روزہ دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیر اعظم پاکستان، امریکی صدر سے سہ روزہ دورے میں 45 منٹ کی ملاقات بھی کریں گے۔ وزیر اعظم کے دورے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، جس میں امریکی حکام سے مصروفیت کا شیڈول طے کیا جارہا ہے۔
ذرائع کے مطابق 22 جولائی ٹرمپ سے عمران خان کی ون ٹو ملاقات ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سہیل محمود اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو وفود کی سطح کی ملاقات کا حصہ ہوں گے۔ ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات اور افغان امن عمل پر بات ہوگی جب کہ طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا تعاون اور دیگر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلۂ خیال ہوگا۔ ذرائع کے مطابق صدر ٹرمپ وزیرِ اعظم عمران خان سے افغان طالبان کو حتمی مذاکرات کے لیے رضامند کرنے کی درخواست کریں گے۔
وزیر اعظم کے دورے سے قبل 6/7 جولائی کو قطر اور جرمنی کے تعاون سے دوحہ میں انٹر ا افغان ڈئیلاگ کے حوالے سے امریکی صدر کے خصوصی معاون برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کی جانب سے ٹوئٹ کی جانے والی خبر کی افغان طالبان نے تردید نہیں کی ہے۔ اس سے فی الوقت یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ انٹر افغان ڈائیلاگ کے حوالے سے جرمنی فارمیٹ کا یہ اہم دور ماسکو کے بعد دوحہ قطر میں افغانستان میں امن کی راہ متعین کرنے میں معاون ہوگا۔ ماسکو میں جرمنی فارمیٹ کے تحت افغانستان کی سیاسی اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دو مذاکرات ہوچکے ہیں اور بعد ازاں طے پایا تھا کہ ملاقات کا اگلا دور دوحہ میں ہوگا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل افغان طالبان اور افغانستان کے اہم سیاسی لیڈروں اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ دوحہ قطر میں اہم مذاکراتی دور ہونا تھا، لیکن کابل انتظامیہ نے 250 افراد کی ایک فہرست مرتب کردی، جس پر افغان طالبان نے اعتراض کیا کہ کابل انتظامیہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے ناقابلِ قبول عمل اختیار کررہی ہے۔ یہ مذاکرات ہیں کوئی شادی کی تقریب نہیں ہے۔ ماسکو میں منعقدہ ہونیوالی کانفرنس فیصلہ ہوا تھا کہ دوسری کانفرنس کا انعقاد قطر میں ہوگا۔ افغان طالبان آج تک اپنے مؤقف اور وعدے پر قائم ہیں کہ ایسی کانفرنس منعقد کی جائے، بلکہ افغان طالبان نے قطر کانفرنس میں ماسکو کانفرنس کی نسبت کئی گنا زیادہ مرد اور خواتین ہم وطنوں کی شرکت سے اتفاق کیا۔ کانفرنس کے شرکا افغان تنازعہ کے حل کے متعلق اپنی ذاتی رائے بیان کرے گی، مگر کابل انتظامیہ کے حکام نے کوشش کی کہ اس کانفرنس کو کابل انتظامیہ اور امارت اسلامیہ کے درمیان مذاکراتی اجلاس بنا دے، جس نے کانفرنس کی پالیسی سے موافقت نہیں کی جس کے بعد انٹرا افغان کانفرنس کا اہم سیاسی دور تعطل کا شکار ہوگیا ۔ اسی طرح پاکستان میں امریکی ایما پر ایک مذاکراتی عمل کرانے کی کوشش کی گئی، لیکن کابل انتظامیہ نے اقوام متحدہ میں افغان طالبان پر سفری پابندیوں کو جواز بنا کر افغان طالبان کو پاکستان آنے سے روک دیا ۔ وا ضح رہے کہ اُس وقت سعودی عرب کے ولی عہد بھی پاکستان کے دورے پر تھے، اور توقع کی جا رہی تھی کہ غیر علانیہ طور پر سعودی ولی عہد کے ساتھ افغان طالبان کی ملاقات کرائی جاسکتی ہے جس میں افغان طالبان کو اپنے رویے میں لچک پیدا کرنے کے لیے راضی کیا جاسکتا ہے، لیکن کابل انتظامیہ کی جلد بازی نے اہم پیش رفت ہونے کی توقعات کو آگے بڑھنے میں عدم تعاون کا مظاہرہ کیا ۔ حالاں کہ سعودی ولی عہدسے شیڈول میں افغان طالبان کے ساتھ ملاقات شامل نہیں تھی۔ تاہم بیک ڈور سفارتی ذرائع میں ایسی ملاقاتوں کو ظاہر نہیں کیا جاتا۔
ایک دوسری کوشش امیرِ قطر کی پاکستان کے دورے کے سامنے بھی آئی لیکن گلبدین حکمت یار کے ساتھ جو وفود آیا تھا، اس میں خلافِ توقع اہم شخصیات نے شرکت نہیں کی ۔ خاص طور پر سابق صدر حامد کرزئی سمیت کئی افغان شخصیات شامل تھیں جنہوں نے کچھ ایسی شرائط رکھیں جو پہلی بھوربن کانفرنس میں ممکن نہیں تھی۔ ممکن تھا کہ صدارتی عشائیہ میں امیرِ قطر سے غیر رسمی ملاقات کا اہتمام ممکن بنایا جاسکتا، لیکن یہاں بھی فروعی مفادات نے پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کیا۔ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ سعودی ولی عہد اور امیرِ قطر کی آمد کے موقع پر افغان طالبان اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی پاکستان میں بیک وقت مدعو کرنا اتفاقی نہیں تھا۔
اب دوحہ قطر میں انٹرا افغان کانفرنس کا اہم دور منعقد ہورہا ہے اور اس بات کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کا حتمی مرحلہ طے ہوجائے گا۔ گو کہ ذرائع کے مطابق اپریل2019ء میں ایک غیر حتمی معاہدہ طے پا چکا ہے، لیکن اس وقت امریکہ کو افغانستان سے انخلا کے بعد افغان طالبان سے ضمانت درکار ہے۔ قطر میں افغان طالبان کے تمام مذاکراتی عمل بذاتِ خود اس بات کی ضمانت ہیں کہ وہ افغان طالبان کی ضمانت دینے میں سر فہرست ہے، لیکن امریکہ کے نزدیک پاکستان کی ضمانت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ کیوں کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان باقاعدہ مذاکراتی دور میں پاکستان کا اہم کردار واضح ہے کہ پاکستان واحد مملکت ہے جس پر امریکہ کچھ شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات افغان طالبان پر اپنا اثر رسوخ کھو چکے ہیں۔ خاص طور پر سعودیہ کی جانب سے جب علمائے کرام نے فدائی (خودکش) حملوں کے حوالے سے فتوی جاری کیا اور افغان طالبان کے ایران و قطر کے ساتھ بہتر تعلقات کو پسند نہیں کیا، تو افغان طالبان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات مثالی نہیں رہے۔ اس وقت پاکستا ن واحد ایسی مملکت کی صورت میں سامنے آیا ہے، جو افغان طالبان کو بہتر سیکورٹی معاہدے کے لیے کسی حد تک راضی کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
پاکستان واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے لیے اب کوئی فیورٹ نہیں ہے۔ نیز پاکستان نے افغانستان میں بھارتی کردار کے حوالے سے بھی نرمی پیدا کرنے کا عندیہ دیا ہے، جس کے بعد افغان طالبان کے لیے سوچ بچار کا مقام ہے کہ ماضی کے اتحادیوں کی ناراضی کے بعد پاکستان سے بھی منھ موڑنا ان کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ ایران، افغان طالبان کی عسکری مدد ضرور کررہا ہے، لیکن ایران بھی واضح طور پر اعلان کرچکا ہے کہ افغانستان میں اقتدار کسی ایک گروپ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ روس، افغانستان کی جنگ میں افغان طالبان کا اتحادی بننے کی دوبارہ غلطی نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے روس کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان کا بامعنی حل نکل آسکے۔
پاکستان افغانستان کے حل کے لیے انتہائی سنجیدہ ہے۔ کیوں کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین ٹیکس نظام میں ضم نہیں ہیں اور لاکھوں افغانی مہاجر اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کررہے ہیں اور پاکستان کی نرمی سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو اُس کا حق نہیں دے رہے۔ اس لیے افغانستان میں امن کے قیام کے بعد آئین کے مطابق افغانی، پاکستان میں تجارت، رہائش و دیگر قانونی سہولیات حاصل کرکے خود کو محفوظ اور پاکستان کو منی لانڈرنگ سے بچا سکتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔ کیوں کہ ان کے تمام اثاثے قانونی طور پر حکومت سے پوشیدہ ہیں۔ اربوں روپوں کے کاروبار سے حاصل شدہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے افغانستان منتقل کردی جاتی ہے۔ اسی طرح غیر قانونی اسمگلنگ اور افغان ٹرانزٹ کی آڑ میں پاکستان کو کھربوں روپوں کا ٹیکس چوری سے نقصان الگ ہورہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی امریکہ کے سہ روزہ دورے میں صدر ٹرمپ کا بنیادی نکتہ امریکی افواج کے انخلا کے لیے پاکستان سے بھرپور ضمانت اور افغان طالبان کی مبینہ سرپرستی سے ہاتھ اٹھانا یا محدود کرنا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں براہِ راست ملوث کردیا ہے۔ اس لیے پاکستان جو بار بار مذاکرات کا کریڈٹ لے رہا ہے، اب اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ چیف آف آرمی اسٹاف ماضی میں غلط پالیسیوں کا اظہار کرتے ہوئے کسی بھی ملک کے لیے نئی جنگ میں پاکستان کو ملوث کرنے کے شدید مخالف ہیں۔ اس لیے امریکہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی افواج کے انخلا میں پاکستان سے کلیدی کردار چاہتا ہے۔ سب سے پہلے پاکستان، افغانستان کے مستقبل میں اپنا کردار سفارتی رکھے۔ دوم، ایران کو افغان طالبان کی درپردہ حمایت کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔ سوم، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ افغان طالبان کے سرد تعلقات کو متوسط سطح پر لائے۔ کیوں کہ مصر کا سابق صدر مرسی کے انتقال پر افغان طالبان نے جس طرح تعزیتی بیان جاری کیا تھا اس نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاتھا۔