سوات یونیورسٹی، بے چارے طلبہ اور والدین کی خاموشی

قارئین کرام! سوات یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علم کسی اور کے نہیں اہلِ سوات کے بچے ہیں ہمارے بچے ہیں۔ اگر ان کے بارے میں اہلِ سوات آواز نہیں اُٹھائیں گے، تو ان کے حق کے لیے کون بولے گا؟
اہلِ سوات سے تو ضلع بونیر کے لوگ اچھے ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے عملی کوشش تو کرتے ہیں۔ آج جوڑ بونیر میں ایک بہت بڑا تعلیمی پراجیکٹ پایۂ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔
اہلِ سوات سے ضلع شانگلہ کے لوگ بھی اچھے ہیں، جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں پیش پیش ہیں۔ یہ تو صرف اہلِ سوات ہیں جو سوات یونیورسٹی کے بارے میں خاموش ہیں اور مسلسل بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کبھی انہوں نے زیرِ تعمیر یونیورسٹی کے بارے میں ذمہ دار حکام سے باز پرس کی ہے کہ آخر اتنے سال گزر گئے، یونیورسٹی کی تعمیر کیوں مکمل نہیں ہو رہی؟ تعمیری کام میں سست روی کا مطلب کیا ہے؟ آخر کب تک سوات کے طالب علم اعلیٰ تعلیم سے محروم رہیں گے؟
قارئین، کانجو ٹاؤن شپ میں کرائے پر لی گئی ایک بلڈنگ میں کب تک تقریباً تین ہزار بچے تین مختلف شفٹوں میں تعلیم حاصل کریں گے؟ یونیورسٹی کے نام پر کروڑوں روپیہ محض سود کے لیے کب تک بنکوں میں پڑا رہے گا؟
یونیورسٹی کے وی سی اور انتظامیہ سے تو اتنا بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ یونیورسٹی میں طالب علموں کے لیے کرائے کی عمارت میں ایک واش روم ہی بنائے۔ یہ یونیورسٹی صرف ایک بنگلے تک محدود ہے۔ کیا ہم اس کو یونیورسٹی کا نام دے سکتے ہیں؟ کیا یونیورسٹی ایسی ہوتی ہے کہ اس کے طالب علم "النور” اور "امرک” جیسی پرائیویٹ لیبارٹریوں کے لیب سے فائدہ اٹھانے جائیں، اور یونیورسٹی کا وائس چانسلر اس حوالہ سے اپنے طالب علموں کے لیے کچھ بھی نہ کرسکے۔ پھر جب ان کے طالب علم کچھ پڑھنے کے لیے لائبریری کا رُخ کریں، تو بجائے ان کو سہولتیں دینے کے ان کو اپنی شناخت کرانا پڑے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے طالب علموں کو اتنا دبایا ہوا ہے کہ وہ اپنے جائز حقوق کے لیے آواز تک نہیں اٹھا سکتے۔ جب وہ طالب علم اپنے جائز کام کراتے ہیں، تو انہیں مختلف ناموں سے ہزاروں روپوں کی فیس جمع کرانا پڑتی ہے۔ قدم قدم پر بچوں کو فیس دینا پڑتی ہے۔
میری تو ان سطور کے ذریعے سوات کے وزیروں، مشیروں، ایم این اے، ایم پی اے اور وزیراعلیٰ محمود خان سے اپیل ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً سوات یونیورسٹی کا دورہ کیا کریں۔ وہاں کی کمیوں اور کوتاہیوں کا نوٹس لیا کریں۔ ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علموں کے والدین سے بھی اپیل ہے کہ وہ بھی اس حوالہ سے اپنا رول ادا کریں۔ بھئی، آپ پیسے دیتے ہیں، تو کم از کم پوچھا بھی کریں کہ ہمارے بچے کس حالت میں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ اور تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں یا بس وقت گزاری کے لیے آتے جاتے ہیں۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔