مشرقِ وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ، ذمہ دار کون؟

مشرقِ وسطیٰ میں عرب ایران تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں ہتھیاروں کی دوڑ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جس کا مکمل فائدہ امریکہ سمیت اُن ممالک کو ہے جو دنیا میں خانہ جنگیوں و جنگوں کا سبب بنتے ہیں اور پھر دفاع کے نام پر اُس مملکت کے تمام معاشی وسائل کو نچوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
گذشتہ دنوں معروف امریکی نیوز چینل کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی۔ امریکی نیوز چینل ’’سی این این‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں ’’مشرقِ وسطی میں ہتھیاروں کی دوڑ‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ قیود اور روک سعودی عرب کو دفاعی ہتھیاروں سے لیس ہونے سے نہیں روک سکی۔ یہاں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت دوچند ہوجاتی ہے کہ سعودی عرب خود کو کیوں دفاعی ہتھیاروں سے لیس ہونے کی کوشش کررہا ہے، تو اس کی واضح وجہ موجود ہے کہ سر زمینِ حجاز کو بیرونی قوتوں سے جارحیت کا سامنا ہے۔ وگر ایسا ملک (یمن) جو اپنی عوام کی غذائی قلت کو پورا نہیں کرسکتا، وہ مہنگے و جدید ترین بلاسٹک میزائلوں اور ڈرون حملوں کے لیے وسائل کہاں سے لارہا ہے ؟ یقینی طور پر یہ وسائل ایسے ممالک (عرب مخالف) فراہم کر رہے ہیں جو بلیک مارکیٹ سے منھ مانگی قیمت پر اسلحہ خریدتے ہیں اور اُن قوتوں کو دیتے ہیں جو جدید ہتھیاروں کو خریدنے کی استطاعت تو نہیں رکھتے، لیکن عالمی قوتوں کے عزائم پورے کرنے کے لیے کرائے کے فوجی کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔
امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ 110 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی ڈیل کی تھی، لیکن کانگریس کی جانب سے سعودی عرب کو اپنے دفاع کے لیے امریکی ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کردی گئی، لیکن امریکی صدر کی پوری دلچسپی اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ پوری دنیا صرف امریکہ سے ہتھیاروں کی خرید و فروخت کریں۔ کانگریس کی جانب سے جب پابندیوں کا اطلاق ہوا، تو سعودی عرب نے اپنی پالیسی کے تحت صرف امریکہ پر انحصار نہیں کیا بلکہ روس سمیت دیگر ممالک سے اربوں ڈالرز کے معاہدے کرلیے۔ سی این این رپورٹ کے مطابق ’’سعودی عرب کی جانب سے ہتھیاروں کی خرید درحقیقت نسبتاً کم رہی۔‘‘ گذشتہ برس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب کی تصدیق شدہ خریداری کی مالیت صرف 14 ارب ڈالر رہی۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر نے نقصان کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کانگریس کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کیا، تاکہ سعودی عرب، امارات اور دیگر ممالک کو 8 ارب ڈالر مالیت کا خریدا گیا اسلحہ جلد منتقل کیا جا سکے۔ یہ اقدام خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا گیا۔ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو توسیع کے لیے چین سے بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیوں کہ 1987ء میں طے پانے والا سمجھوتا سعودی عرب کو ایسی امریکی ٹیکنالوجی کی خریداری سے روکتا ہے جو وسیع تباہی کے ہتھیاروں کی حامل ہو سکتی ہے۔ لہٰذا سعودی عرب نے بیجنگ کا رُخ کیا۔ چین کے ساتھ مذکورہ خریداری کا حجم واضح نہیں، تاہم یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ سعودی مملکت خطے میں سب سے بہتر اسلحہ خانہ حاصل کرنے کے واسطے کوشاں ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ سعودی عرب ابھی تک جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر روک لگانے کے معاہدے پر کاربند ہے۔
دوسری جانب ریاض ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے تعاون سے اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے کھلا مؤقف رکھتا ہے۔ ایجنسی نے گذشتہ برس جولائی میں ایک ٹیم سعودی عرب بھیجی تھی جس کا مقصد اس حوالے سے تعمیراتی منصوبوں کے مقامات کا معائنہ کرنا تھا۔ سعودی عرب بارہا یہ اعلان کر چکا ہے کہ یہ پروگرام پُرامن ہے۔ اگرچہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا، کہ سعودی عرب جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوشاں ہے، تاہم جس طرح سر زمینِ حجاز پر حملوں میں تیزی آتی جا رہی ہے، اور عالمی قوتیں بھی دباؤ میں اضافہ کررہی ہیں، اس سے ظاہری طور پر سعودی عرب کا ایٹمی پروگرام کی جانب رجحان موجود ہے۔ یاد رہے کہ ریاض کے مضافات میں ارجنٹائن کے تعاون سے ’’ری ایکٹروں‘‘ کا کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے متعدد امریکی کمپنیوں سے جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کی، جن کے بارے میں انکشاف نہیں کیا گیا۔ مذکورہ کمپنیوں کو امریکی وزارت توانائی کی جانب سے سات پرمٹ جاری کیے گئے تھے۔ ان اجازت ناموں کو ’’پرمٹس 810‘‘ کا نام دیا گیا اور ان کے سبب ڈیموکریٹس قانون ساز مشتعل ہوگئے۔ ڈیموکریٹس کو اس معاملے میں غیر معمولی رازداری پر اعتراض تھا۔ مذکورہ پرمٹس کے اجرا کی تاریخوں کا انکشاف ہوچکا ہے ۔ البتہ امریکی کمپنیوں کے نام اب بھی خفیہ رکھے گئے ہیں۔ سعودی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ جوہری ری ایکٹرز سمندری پانی کے Desalination کے عمل میں فائدہ مند ہوں گے۔ تاہم خریداری کے عمل کی رازداری نے ایٹمی طاقت رکھنے والوں کے کان کھڑے کردیے ہیں کہ سعودی عرب کے منصوبے کا ایجنڈا اس سے زیادہ وسیع ہوسکتا ہے۔
سعودی عرب وژن 2050ء کے تحت قدامت پسندی سے ترقی پسندی کی جانب گامزن ہے۔ روایتی پیٹرولیم مصنوعات پر انحصار کم کرنے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کو جدت پسندی کی جانب لانے کے لیے بڑے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔ سر زمینِ حجاز ہونے کی نسبت عالمِ اسلام کا والہانہ لگاؤ فطری ہے۔ اس لیے سرز مینِ حجاز کی حفاظت کے لیے سعودی عرب کی جانب سے اٹھائے جانے والے تمام اقدامات کی کھلی حمایت کا اعادہ اعلانِ مکہ میں بھی کیا گیا، اور اعلامیہ میں خطے کو درپیش خطرات سے آگاہی کے لیے مسلم اکثریتی ممالک کو اعتماد میں لیا گیا۔گو کہ قطر نے مشترکہ اعلامیہ سے یو ٹرن لیا، لیکن مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں قطر کی حمایت حاصل تھی۔ مشترکہ اعلامیہ کے بعد قطر کا یُوٹرن لے لینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ یہاں بات مشرقِ وسطی میں صرف سعودی عرب تک محدود نہیں ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ بشار رجیم نے ایران اور روس کے ساتھ مل کر بڑی تعداد میں جہاں پرائیوٹ فوجی دورانِ جنگ استعمال کیے، تو دوسری جانب ان ممالک کے جدید ہتھیاروں و جنگی ساز وسامان کو بھی حاصل کیا۔ خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے اور یمن میں حوثی باغیوں کی بیرونی امداد کے سبب جنگ کا دائرہ بڑھتا چلا گیا۔ ترکی بھی شام کی جنگ میں کرد باغیوں کی وجہ سے جنگ میں شامل ہوا اور دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ F-35 جنگی طیاروں کا معاہدہ کیا۔ اس کے ساتھ روس سے بھی دفاعی میزائل پروگرام S-400 کا بھی معاہدہ کرلیا، جو امریکہ کے لیے ناقابلِ قبول بنا۔ امریکہ نے کہا ہے کہ ترکی کی جانب سے روسی ایس 400 فضائی دفاع کے نظام کا حصول ’’لوک ہیڈ مارٹن کارپوریشن‘‘ کے ایف 35 اسٹیلتھ فائٹرز کے لیے خطرے کا باعث ہے، جسے ترکی خریدنا چاہتا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ ترکی ایک ساتھ یہ دونوں کام نہیں کر سکتا۔ امریکی وزیر دفاع شناہان نے اپنے مراسلے کے ذریعے ترکی کو یہ پیغام دیا کہ ’’ایف 35 کی اب کوئی نئی تربیت نہیں ہوگی۔‘‘ مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے اواخر میں 34 طالب علموں کو ایف 35 کی تربیت دی جانی تھی۔مراسلے کے ہمراہ روانہ کی گئی ایک اٹیچمنٹ کا عنوان ہے: ’’ایف 35 پروگرام میں ترکی کی شرکت کا خاتمہ‘‘۔ بقول ان کے، ’’اب یہ تربیتی پروگرام نہیں ہوگا، چوں کہ ہم ترکی کو ایف 35 پروگرام سے معطل کرتے ہیں۔ ان نظاموں میں مہارت کے حصول کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔‘‘اپنے مراسلے میں، شناہان نے چوکنا کیا کہ ترک اہل کاروں کے لیے ’’لوک ایئر فورس بیس‘‘ اور ’’اگلین ایئر فورس بیس‘‘ پر تربیت ختم کیے جانے کا باضابطہ اعلان جولائی کے آخر میں کر دیا جائے گا۔ شناہان نے اپنے مراسلے میں کہا ہے کہ طے شدہ وقت کا ذکر واضح کرتا ہے کہ سارے نہیں بلکہ ایف 35 پر موجودہ تربیت حاصل کرنے والے ترک طالب علم کورس مکمل کرسکتے ہیں، جنہیں 31 جولائی 2019ء تک امریکہ سے واپس جانا ہوگا۔ اب بھی آپ کے پاس یہ متبادل ہے کہ ایس 400 کے معاملے پر فیصلہ تبدیل کر لیں۔‘‘
اگر یہ سمجھا جائے کہ امریکہ مشرقِ وسطی میں صرف اپنی اجارہ داری چاہتا ہے، تو غلط نہیں ہوگا ۔ کیوں کہ امریکہ ماضی میں سعودی عرب و عرب ممالک سے مشرق وسطیٰ میں موجودگی کا معاوضہ طلب کرچکا ہے کہ امریکہ کی وجہ سے سعودی عرب کی حفاظت کی گئی، جس کا سخت ردعمل سعودی عرب کی جانب سے دیا گیا۔

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔