پہ مینگورہ باندی اُور اولگیدو

راقم نے پہلے کہیں لکھا ہے کہ سوات کی تاریخ کے حوالے سے ایسے کچھ واقعات ماضی میں رونما ہوئے ہیں جن کے بارے میں مستند معلومات صرف اور صرف برطانوی حکومت کی محفوظ کردہ فائلوں میں دفن ہیں۔ اگر ایک طرف ان فائلوں کو ٹٹولتے وقت پڑھنے والے کو اُن کی محنت اور انتظامی برتری کا احساس ہوتا ہے، تو دوسری طرف ان گوروں کے لیے دل سے ’’دعا‘‘ بھی نکلتی ہے۔ یقینا یہ گورے اس قابل تھے کہ وہ دنیا میں اتنی وسیع سلطنت پر حکمرانی کرتے کہ جہاں پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ راقم اُن کی ریکارڈ کیپنگ کا دل سے معترف ہے۔ آج کے موضوع کے بارے میں یہ فائلیں بھی کچھ مستند معلومات فراہم کرتی ہیں، اور مِسنگ لنکس کو مربوط شکل دینے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
مینگورہ شہر کو نہ صرف سوات بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن کے کاروباری لین دین میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ تاریخی مواد سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ شہر عرصۂ دراز سے ایک اہم مقام رہا ہے اور اسے سوات کے دوسرے علاقوں پر برتری حاصل رہی ہے۔ اسی مناسبت سے ایک خفیہ رپورٹ کا حوالہ دینا چاہوں گا جو کہ ستمبر 1897ء میں کیپٹن نکولا (Captain Nicolla) اور کیپٹن سوائنی (Captian Swayne) نے مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ کا عنوان ’’اکوزئی یوسف زئی، اَپر سوات اینڈ لور سوات‘‘ تھا۔ یہ رپورٹ سوات میں موجود قبائل، اُن کی اوسطاً آبادی اور سربراہان کے ناموں پر مشتمل ایک مستند دستاویز ہے۔ اس رپورٹ کی تفصیل کسی اور موقع کے لیے چھوڑنا مناسب سمجھتا ہوں۔ فی الحال مینگورہ کے متعلق اس رپورٹ میں درج مختصر تفصیل دینا چاہوں گا، جو کچھ یوں ہے:
"The Largest villages in Upper Swat is Mingora (1000 Houses) belonging to the Babozai Division of the Baizai, next to this is Charbagh (600 Houses) and after this is Minglaor (40 0Houses)”.
ریاستِ سوات بننے کے بعد مینگورہ شہر ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ کیوں کہ یہ شہر نئے ہیڈ کوارٹر سیدوشریف سے بہت کم فاصلے پر تھا اور یہی کم فاصلہ اس کے پھیلاؤ میں بھی مددگار ثابت ہوا۔ مینگورہ شہر کا مختصر پس منظر پیش کرنے کے بعد اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ 1940ء کی دہائی میں مینگورہ میں ایک تباہ کن آگ لگی تھی جس سے یہ کاروباری مرکز راکھ کا ڈھیر بن گیا تھا۔ مذکورہ آگ کے متعلق بزرگوں کی باتیں صرف زبانی معلومات تک محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اس واقعہ کے متعلق لکھی گئی تاریخ نہ ہونے کے برابر ہے اور جو کچھ لکھی گئی ہے، وہ ہمیں متضاد معلومات پہنچاتی ہے۔ قارئین تک مستند معلومات فراہم کرنے کی غرض سے اس مواد کا مختصر ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
انعام الرحیم اور ایلن ویارو اپنی تصنیف "Swat an Afghan Society in Pakistan: Urbanization and Change in a Tribal Environment” میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ آگ مئی 1944ء میں مین بازار میں لگی اور ڈھیر ساری دکانوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کرگئی۔ بعد میں ریاستِ سوات کے حکمران میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب نے متاثرہ لوگوں کو مالی امداد بھی فراہم کی۔ یہ امداد زیادہ تر کنکریٹ میٹریل کی شکل میں تھی۔ دکانوں کے مالکان کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ لکڑی کی بجائے کنکریٹ اور پختہ دکانیں بنانے کو ترجیح دیں، اور دکانوں کے دونوں طرف آٹھ میٹر تک روڈ کی چوڑائی یقینی بنائیں۔ علاوہ ازیں پانی کے نکاس کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔ نئے بازار میں ایک اچھا خاصا حصہ خچروں اور ہتھ گاڑیوں کے لیے بھی مختص کیا گیا (اس جگہ کو کھتیڑہ کے نام سے یاد کیا جاتاہے)۔
مذکورہ دونوں مصنفین کے مطابق یہ آگ نئے اورجدید مینگورہ کی تعمیر کے لیے نقطۂ آغاز ثابت ہوئی اور آہستہ آہستہ مین بازار کے بعد دوسرے چوک بھی وجود میں آئے۔
عبدالقیوم بلالہ نے اپنی تصنیف ’’داستانِ سوات‘‘ میں بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن کے مطابق یہ آگ 1943ء میں لگی۔ انہوں نے اس آگ کے حوالے سے ایک مقامی شاعر ’’دلریش‘‘ کا لکھا گیا چاربیتہ (پشتو صنفِ شاعری) بھی نقل کیا ہے جو زیرِ نظر سطور کے اختتام پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اس تباہ کن آگ کے حوالے سے سب سے زیادہ مستند معلومات ایک خفیہ رپورٹ میں سامنے آتی ہیں۔ یہ رپورٹ 9 جون 1946ء میں لکھی گئی تھی۔ مذکورہ تفصیلی رپورٹ اُس وقت این ڈبلیو ایف پی (اب خیبر پختونخوا) کے گورنر سر اُولف کیرو (Sir Olaf Caroe) نے متحدہ ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ویول (Lord Wavell)کو ارسال کی تھی۔ مینگورہ میں آگ کے واقعے کے متعلق اس رپورٹ میں تفصیل کچھ یوں درج ہے:
"There has been a disastrous fire at Mingora, where the main bazaar of Swat State is situated, one mile from Saidu Sharf, and all the shops have been burnt down with a loss of many lakhs of rupees to the traders concerned. I am giving the wali (Bacha Sahib) a small contribution for the sufferers but this will not go very far, and I wish it was possible to do something a little bit more as a signal to help him out. Fortunately Swat is a well-to-do State.”
اس رپورٹ میں اگر ایک طرف لاکھوں روپے نقصان کا ذکر کیا گیا ہے، تو دوسری طرف برطانوی حکومت کی مالی مدد اور ریاستِ سوات کی مالی لحاظ سے مضبوطی کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آگ لگنے کا یہ واقعہ دراصل مئی 1946ء میں پیش آیا، نہ کہ 1943ء اور 1944ء میں۔ اس وقت مینگورہ میں لگی آگ کی تپش اور آہ و بکا کی گونج متحدہ ہندوستان کے اعلیٰ ترین ایوانوں تک پہنچ گئی تھی۔
شعرا معاشرے کے حساس ترین افراد ہوتے ہیں اور آس پاس ہونے والے واقعات سے گہرا اثر لیتے ہیں۔ اسی لیے سوات کے مقامی شعرا نے بھی اس موضوع پر طبع آزمائی کی۔ ایک مقامی شاعر دلریش کا چاربیتہ ملاحظہ ہو:
داسی ناسپہ شر و شور اولگیدو
پہ مینگورہ باندی اور اولگیدو
راغے بادشاہ صاحب بہادر ورسرہ
دواڑہ سر تور، وو سادر ورسرہ
وے، خپلہ نیکہ غوث الاغواثہ راشہ
مونگہ پہ زمکہ تہ لپاسہ راشہ
چار سو آرڈر د والی سوات چلیدو
بل د نیکہ یے کرامات چلیدو
چالیس اعداد پہ کے د کور اولگیدو
پہ مینگورہ باندے اور اولگیدو
غفور خان ایڈوکیٹ کے مطابق متذکرہ بالا چاربیتہ کے علاوہ ایک اور چاربیتہ کو بھی شہرت حاصل ہوئی جو کہ شیرین شاہ خیل اکثر ترنم میں گایا کرتے تھے جو کہ کچھ اسی طرح تھا:
باد شاہ صاحب سلطان
یو دم او کو فرمان
کہ پولیس دی کہ بگلر دی دا دی ٹول درومی د سرہ
تباہ شوہ مینگورہ
خلق وو د کاٹیلئی
راتلہ بہ پہ بلئی
چا بہ لوخی تختول چا بہ ٹیمان
بادشاہ صاحب سلطان

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔