عنانِ اقتدار پہ کوئی دودھ کا دھلا بھی بٹھا دیں، تو عوامی اُمیدیں کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ وجہ یہ نہیں ہے کہ عوامی اُمیدیں ’’انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘‘ کے برابر ہیں، بلکہ ہم ایک ایسی محکوم قوم ہیں جو آزاد ہو کے بھی آزاد نہیں ہیں۔ ہم ریکوڈک، کھلے سمندر میں تیل و گیس کے ذخائر، گلابی نمک، کو سوشل میڈیا پہ لائیکس و شیئر کرنے کے لیے تو استعمال کرتے ہیں، لیکن حقیقت سے عاری ان منصوبوں کا قطعاً ملکی معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ ہم عالمی استعمار کے پنجوں میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ ہم نہ تو کوئی عالمی سطح کا منصوبہ اپنے ہاں شروع کرسکے ہیں، نہ اپنی معیشت کی بہتری ہی کے لیے کسی قسم کے انقلابی اقدامات اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔ ہمیں تو آئی ایم ایف قرض اس شرط پہ دیتا ہے کہ کلیدی عہدوں پہ بندے ان کی مرضی کے ہوں، ملک کی مجموعی معاشی صورت حال کے متعلق فیصلے ان کی منشا کے مطابق ہوں اور بجٹ دستاویز میں الفاظ تو سارے پاکستانی ہوں لیکن اعداد و شمار ہر لحاظ سے ان کی خواہش کے مطابق ہوں۔ تو پھر ہم توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ بجٹ عوام دوست بنایا جائے گا یا بنایا جا سکتا ہے؟
مزدور کی تنخواہ 17 ہزار 5 سو ہو گئی ہے۔ شاباش بھئی، دیکھا انقلابی حکومت نے کس طرح انقلابی قدم اُٹھایا ہے، اسے کہتے ہیں تبدیلی۔ ارے جناب، جب عرصے سے بحث ہو رہی ہے کہ مزدور کی تنخواہ کو ایک تولہ سونے کی قیمت سے منسلک کر دیا جائے، تو پھر یہ 17 ہزار 5 سو کا شوشا چھوڑنے سے کیا حاصل؟ اور جتنی آپ نے مزدور کی تنخواہ مقرر کی ہے، کیا آپ کے پاس کوئی ایسا نظام موجود ہے کہ جو یہ یقینی بناتا ہو کہ مزدور کو اتنی تنخواہ ملے گی؟ یہاں ادارے مزدور کا جو حق ہے ای او بی آئی کی کٹوتی جو مزدور کے بڑھاپے کا آسرا بن سکتی ہے، وہ ادارے میں نہیں بھجواتے، تو آپ کم از کم اجرت کو کیسے یقینی بنائیں گے؟ اور ہمارے ہاں تو مزدور کی آج تک باقاعدہ تعریف ہی نہیں ہو سکی کہ مزدور کہتے کسے ہیں؟ آکسفورڈ، کیمبرج، ڈکشنری اور مختلف دیگر حوالوں سے مزدور کی جو بہتر صورت سامنے آتی ہے، یہی ہوسکتی ہے کہ ایسا عملی کام کرنے والا جس میں جسمانی مشقت شامل ہو۔ اور پاکستان کے حوالے سے ہم مزدور اکثر اس کو کہتے ہیں جو ہمیں چوراہوں پہ نظر آتے ہیں اپنے اوزاروں کے ساتھ، راج مستری ہوں یا پینٹر، مکینک ہوں یا پھر سینٹری ورکز، ہم دیہاڑی دار افراد کو عام فہم میں مزدور تصور کرتے ہیں اور دفاتر میں کام کرنے والے افراد، جن کو سفید پوش بھی کہا جاتاہے، وہ ہماری نظر میں مزدور کی تعریف پہ پورا نہیں اترتے، لیکن دونوں صورتوں میں بجٹ کا یہ حصہ کتنا کار آمد ہے؟ کیا ایک دیہاڑی دار بھی اگر تصور کریں، تو ہم اسے پورا مہینا کام کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ اور اگر ہم سفید پوش دفتری کام میں مصروف افراد کو اس تعریف میں شامل کریں، تو کیا 17 ہزار 5 سو میں ایک متوسط فیملی یعنی 5 سے 6 افراد کے خاندان کا بجٹ مہینے کا بن سکتا ہے؟ عقل کے تقاضوں کے تحت سوچیں تو نہیں بن سکتا۔ تبدیلی کے نعروں کے مطابق دیکھیں، تو اس رقم میں 10 خاندان پل سکتے ہیں۔
10 فی صد اضافہ تنخواہوں میں؟ 15 فیصد اضافہ؟ آپ تنخواہوں میں بالکل بھی اضافہ نہ کرتے صرف مہنگائی کے طوفان پہ ہی کچھ قابو پالیتے۔ 20 ہزار تنخواہ لینے والے کے لیے یہ اضافہ 2 ہزار روپے بنا۔ اور دوسری جانب چینی، گھی، تیل، دالیں، آٹا اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیا مہنگی کرکے، یہ اضافہ تو الگ، اس اضافے کے علاوہ گھریلو عام صارف کے بجٹ پہ 5 سے 10 ہزار کا ٹیکہ لگا دیا گیا۔ اب بھلا بتائیے، 2 ہزار اضافے پہ خوشی منائیں یا پھر پانچ ہزار روپے ماہانہ بجٹ کے بڑھ جانے والے خرچے پہ نوحہ کناں ہوں؟ ذرا سنیے کہ کابینہ اراکین کی تنخواہوں میں کمی کر دی گئی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاست دان عوام کا استحصال کر کے ووٹ چھینتے ہیں، وہاں ان اراکین کو بھلا تنخواہوں سے غرض بھی کیا ہے؟ آپ کابینہ اراکین کی تنخواہیں بے شک 50 فیصد بڑھا دیجیے۔ صرف ان کو حاصل مراعات آدھی کر دیجیے۔ آپ ملاحظہ کیجیے گا کتنی بچت ہو پائے گی، اور 10 فی صد تنخواہوں میں اضافے کے بڑے فیصلے کی دھول میں جو وزرا، وزرائے مملکت، پارلیمانی سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، جائنٹ سیکرٹری، کے ساتھ کام کرنے والے سپیشل پرائیویٹ سیکرٹری، پرائیویٹ سیکرٹری، اور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، اس پہ کوئی بات نہیں کرے گا۔ شنید یہ ہے کہ یہ حضرات بیوروکریٹ بھی نہیں ہیں بلکہ پارٹی کے وہ ورکرز ہیں جو برے بھلے وقت میں دفاع کرتے کیا کرتے تھے۔
پاکستان کے جو مجموعی حالات ہیں ان میں تو 50 ہزار تنخواہ لینے والا شخص امارت کی کسی تعریف میں نہیں آتا۔ ہاں، اسے ہم متوسط طبقے میں ضرور شمار کر سکتے ہیں، لیکن اس سے آپ ٹیکس لیں گے۔ یہ سوچے بنا کہ آپ اس سے پہلے ہی گھر میں استعمال ہونے والے نمک پہ بھی ٹیکس لے رہے ہیں۔ آڑھتیوں، ڈیلرز، کمیشن ایجنٹس پہ آپ نے ایڈوانس ٹیکس لگا دیا۔ بہت اچھا کیا، لیکن ایک لمحہ سوچئے، وہ کیا یہ ٹیکس اپنی جیب سے ادا کریں گے یا عام عوام کی جیب سے نکالیں گے؟
منڈی میں ایک آڑھتی ہے، وہ پہلے ایک ٹرک کا مال 1 لاکھ میں خریدتا تھا، اب سے ڈیڑھ لاکھ میں خریدتا ہے، تو کیا وہ عام صارف یا دکان دار سے پیسے وصول کرے گا، یا یہ فرق خود دے گا؟ آپ اس سے جو ٹیکس بھی وصول کریں گے، وہ ٹیکس بھی آڑھتی ریٹ میں شامل کر کے آگے فروخت کرے گا مال، تو پھر اس ٹیکس کابوجھ بھی آپ نے بلا واسطہ عوام پہ ہی ڈالا ۔
اسٹامپ پیپرز مہنگے کر دیے گئے۔ کوئی عقلمند بتا دے کہ ان کا مہنگا ہونا اسٹامپ فروش پہ فرق ڈالے گا یا اس عام آدمی پہ جو اسٹامپ پیپر خریدے گا؟ اس بجٹ نے 50 لاکھ گھروں کے نعرے کو بریک لگا دی کہ سیمنٹ و سریا تو آپ نے مہنگا کر دیا۔
بجٹ سے حقیقی معنوں میں کوئی خاص امید نہیں تھی کہ محکوم قوموں کا بجٹ بھی محکوم ہوتا ہے۔ اور یہ محکومیت ضروری نہیں کہ کسی ملک کے زیرِ تسلط ہی ہو۔ جدید دور میں عالمی معاشی ادارے قوموں کو محکوم بناتے ہیں، اور ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم انقلابی اقدامات کی بجائے عالمی اداروں کے کہنے پہ اپنی عوام کو 512 ارب کے نئے ٹیکس کے بوجھ تلے دبانے کو ہی شاید ترقی سمجھتے ہیں۔ ہم صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر کی ترقی کو شاید ترقی شمار ہی نہیں کرتے۔ امیدیں بے شک اس بجٹ سے نہیں تھیں، لیکن بہرحال ایک آس ضرور تھی۔ وہ بھی شکر ہے اب نہیں ختم ہوئی کہ اپنے نعروں کو ہی جب بجٹ میں جگہ نہیں دے پائے، تو اور کیا اہداف حاصل ہو پائیں گے؟
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔