منحوس کون؟

کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ توہم پرست تھا۔وہم تھا کہ صبح اٹھنے کے بعد سب سے پہلے بدصورت شخص کو دیکھنے سے حکومت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگر ایسا کوئی شخص بادشاہ کے قریب آئے، تو حکم تھا کہ اس کا سر قلم کر دیا جائے۔ خادموں کی کوشش ہوتی کہ صبح کے وقت بادشاہ کا سامنا خوش شکل شخص سے ہو۔ ایک بار بادشاہ سیر کے لیے نکلا، تو نظر بھکاری پر پڑی۔ سخت ناگوار گذرا۔ گرفتار کرکے سزا کا حکم دیا۔
پھانسی کے وقت بھکاری سے آخری خواہش پوچھی گئی، تو اس نے کہا، جانتا ہوں کہ مجھے پھانسی ہوگی۔ بچنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ آخری خواہش ہے کہ بادشاہ سے ملاقات کر وادیں۔
سپاہی جواباً بولا، یہ ناممکن ہے۔ کیوں کہ تم منحوس ہو۔
؂ بھکاری نے کہا، اچھا پردہ کے پیچھے سے بات کروادو۔
چار و ناچار خواہش بادشاہ تک پہنچائی گئی۔ اس نے آمادگی ظاہر کی۔ ملاقات کا وقت آیا، تو بھکاری نے پردہ کے پیچھے سے بادشاہ سے کہا، اگر میں آپ کے لیے منحوس ہوتا، تو جس جگہ آج میں ہوں، آپ ہوتے اور سلطنت ختم ہوچکی ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس صبح اٹھ کر میں نے سب سے پہلے آپ کی شکل دیکھی اور پھانسی کے تختہ تک پہنچ گیا۔ بتائیے، منحوس کون ہے؟ اگر آپ صبح نظر نہ آتے، تو مجھ پر یہ مصیبت نہ آتی۔
بادشاہ سناٹے میں آگیا اور حواس بحال ہونے پر بھکاری کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
(ماہنامہ ’’قلندر شعور‘‘ ماہِ جون کے صفحہ نمبر 63 سے مقتبس)