شعرا نئے فرمانروا کی تخت نشینی کے موقعے پر "سکّہ” کہتے تھے۔ سکّہ بالعموم صرف ایک شعر پر مشتمل ہوتا تھا جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے تھے اور اس شعر میں بادشاہ کا نام یا لقب نظم کیا جاتا تھا۔ چوں کہ یہ شعر اس مفروضے کے تحت لکھا جاتا تھا کہ اسے نئے بادشاہ کے سکّے پر کندہ کرایا جائے گا، اس لیے درحقیقت یہ سکّے کا شعر تھا، جسے بطورِ مجازِ مرسل سکّہ ہی کہتے تھے۔
1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد جب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی، تو غالبؔ بھی معتوب ہوئے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے باغی بادشاہ کا سکّہ کہا تھا۔ چناں چہ مرزا غالبؔ نے نواب حسین مرزا کے نام ایک خط میں لکھا ہے: "یہاں ایک اخبار جو گوری شنکر یا گوری دیال یا کوئی اور غدر کے دنوں میں بھیجتا تھا، اس میں ایک خبر اخبار نویس نے یہ بھی لکھی کہ فلانی تاریخ اسداللہ خاں غالبؔ نے یہ سکّہ کہہ کر گزاری:
بہ زر زد سکّہ کشور ستانی
سراج الدولہ بہادر شاہ ثانی
مجھ سے عندالملاقات صاحب کمشنر نے پوچھا کہ یہ کیا لکھتا ہے؟ میں نے کہا کہ غلط لکھتا ہے۔ پادشاہ شاعر، پادشاہ کے بیٹے شاعر، پادشاہ کے نوکر شاعر، خدا جانے کس نے کہا۔ اخبار نویس نے میرا نام لکھ دیا۔” یہ سکّہ غالباً ذوقؔ نے کہا تھا۔
رواہت ہے کہ  میر جعفر زٹل نے اعظم شاہ کا سکّہ کہہ کر بھاری انعام حاصل کیا تھا۔ سکّہ یہ تھا:
نگین سلیماں کہ تابندہ بود
ہمیں اسم اعظم بر و کندہ بود
(ابوالاعجاز حفیظ صدیقی کی تالیف "ادبی اصطلاحات کا تعارف” مطبوعہ "اسلوب، لاہور” اشاعتِ اول مئی 2015ء، صفحہ 289 اور 290 سے انتخاب)