نومبر کی پہلی تاریخ کو ’’باب‘‘ اس کی بیٹی ’’جسیکا‘‘ اور اس کے والد کا جنم دن تھا۔ اس نے اپنا جنم دن گھر میں کیک کاٹ کر نہیں بلکہ اس دن اپنے علاقہ میں صفائی کے حوالے سے شعور اجا گر کرنے کے لیے واک کرکے منانے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے ہم ہفتے کی صبح ’’پام بے‘‘ گئے جہاں ’’ٹرکی کریک‘‘ کے قریبی پارک میں واک کے لیے گئے، جس میں اس کے قریبی دوست اور رشتہ دار شامل ہوئے۔ تاہم اس دن کی دوسری سرگرمی جس میں ملبورن کے لوگوں نے مل کر ٹرکی کریک یعنی پانی کی ایک ندی کی صفائی کی۔ مجھے بہت پسند آئی، اور اندازہ ہوا کہ یہاں کے لوگ اپنے اردگرد کو کیسا صاف رکھتے ہیں اور وہ کس طرح اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کرتے ہیں؟ ہماری طرح نہیں کہ صرف حکومتی اداروں کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں اور ان کاموں کے لیے ان اداروں کا ہی انتظار کرتے ہیں۔
اس دن بڑی تعدا د میں لوگ اکھٹا ہوئے جن میں بڑے، نوجوان اور چھوٹی عمر کے لوگ شامل تھے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ’’کے بی بی ‘‘ (Keep Brevard Beautiful) نے ان کے لیے پانی، کشتی اور دوسرے انتظامات کیے تھے۔
فلوریڈا سٹیٹ پورے امریکہ بلکہ پوری دنیا میں ناسا اور ’’کینیڈی سپیس سنٹر‘‘ کے لیے مشہور ہے، جہاں نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا سے سیاح آتے ہیں۔ اس لیے باب نے بھی ہمارے لیے یہاں کی سیر کا انتظام کیا تھا۔ لہٰذاپیر کے روز ہم نے کینیڈی خلائی مرکز کا دورہ کیا جس کے لیے فلوریڈا ٹوڈے کے رپورٹر ’’ایمری کیلی‘‘ (Emre Kelly) ہمارے ساتھ گئے۔
ایمری دراصل ’’سپیس رپورٹر‘‘ ہے اور وہاں سے بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے صبح نو بجے ہمیں ہوٹل سے لیا اور 45 منٹ کی موٹر گاڑی کی سواری کے بعد ہم کینیڈی خلائی مرکز کی پارکنگ میں تھے۔ اندر جانے کے لیے ہر ایک کو پچاس ڈالر کا ٹکٹ لینا تھا۔ ٹکٹ لیے اور اندر چلے گئے، جہاں دیوقامت خلائی شٹل اور راکٹ لگے تھے جس کے ساتھ بڑی تعداد میں سیاح تصویریں کھینچ رہے تھے۔
ہم سب سے پہلے ایک بڑے ہال میں گئے جہاں پہلے خلائی شٹل اٹلانٹس کی بناوٹ اور کامیاب خلائی پرواز کے بارے میں فلم دکھائی گئی، جس میں اس شٹل کے بنانے کے بارے میں معلومات تھی۔ مجھے اس دن پتا چلا کہ خلائی شٹل اور راکٹ میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اٹلانٹس شٹل سے پہلے خلا میں صرف راکٹ ہی بھیجے جاتے تھے جو ایک کیپسول نما تیز رفتا جہاز ہوتے تھے۔ یہ صرف ایک دفعہ ہی استعمال ہوسکتے تھے۔ راکٹ میں ایندھن اور خلا باز کے بیٹھنے کے لیے ایک ہی کیپسول استعمال ہوتا تھا جب کہ واپسی میں یہ شٹل لینڈ نہیں کرسکتا تھا اور خلا باز اس سے جدا ہوکر سمندر میں اترجایا کرتا تھا۔ جب کہ شٹل میں ایندھن کے لیے الگ کیپسول اور خلا بازوں کے لیے الگ جگہ ہوتی ہے، یعنی یہ اصل میں خلائی جہاز ہے جسے بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔
فلم شٹل کے بننے تک تھی، جس کے بعد ہمیں ایک دوسرے ہال میں لے جایا گیا۔ یہ تھری ڈی ہال تھا۔ اس میں تھری ڈی ٹیکنا لوجی کے ذریعے اٹلانٹس شٹل کی وہ فلم دکھائی گئی جو اس نے 12 اپریل سن 1981ء کو پہلی کامیاب پرواز کی اور جس نے خلائی دور میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔ اس پرواز میں دو خلا بازوں ’’جان ڈبلیو ینگ‘‘اور ’’رابرٹ ایل کریپن‘‘ نے پرواز کی۔ تھری ڈی اسکرین ہمارے سامنے، دونوں اطراف اور سر پر تھا۔ یہ بالکل ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے میں بھی خلا میں ہوں اور اٹلانٹس کا حصہ ہوں۔ میرے اردگرد ویڈیو سکرین پر جو کچھ دکھائی دے رہا تھا، وہ میں نہ صرف دیکھ رہا تھا بلکہ محسوس بھی کر رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میں 17 جولائی 2018ء میں نہیں بلکہ 12 اپریل سن 1981ء کو اس تاریخی واقعے کا عینی شاہد بن رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں خلا باز ہوں اور میں 196 بلین امریکی ڈالر سے بننے والے اس پہلے خلائی شٹل جو 17580 میل فی گھنٹا کی رفتار سے چل رہا تھا، میں بیٹھ کر خلا کو دیکھ رہا تھا، تلاش رہا تھا۔ 126 ملین میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد 14 اپریل 1981ء کو زمین کے گرد تقریباً 36 دفعہ گھومنے کے بعد اٹلانٹس واپس زمین پر آیا، تو فلم بند ہوئی اور ہم آگے کی طرف ایک دوسرے ہال میں داخل ہوئے جہاں اٹلانٹس شٹل ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ اٹلانٹس کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کرحیرت بھری خوشی سے تمام لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ ہم نے اس شٹل کو قریب سے دیکھا۔ اپنے ہاتھوں سے ٹچ کیا اور اس کے ہر حصہ کو قریب سے دیکھا۔ ہمیں اس کے بعض حصوں میں اندر بھی جانا پڑا۔ یہاں سے جب ہم نکلے، تو ایمری ہمیں بس سٹیشن لے گیا جہاں ہم نے بس کے ذریعے کینیڈی سپیس سنٹر کے دوسرے حصو ں کو دیکھنا تھا۔ ہم بس میں سوار ہوئے اور سوار ہوتے ہی ڈرائیور جو کہ گائیڈ بھی تھا، نے لاؤڈ سپیکر کے ذریعے معلومات دینی شروع کیں۔ ہمیں مختلف خلائی راکٹ جو پرواز کے لیے تیار تھے، سے ڈرائیور گزارتا گیا اور ہمیں ان کے بارے میں معلومات دیتا رہا۔ حتی کہ ہماری بس اپالو سیٹورن پانچ سنٹر کے قریب رکی اور ہم سب نیچے اتر کر گیٹ کے سامنے قطاروں میں کھڑے ہوکر اندر جانے کا انتظارکرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد دروازے کھل گئے، تو ہم ایک گول ہال میں داخل ہوئے جس میں تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے اپالو پروگرام کی تاریخ اور ترقی کے بارے میں بتایا گیا۔ یہاں کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد دوسرے ہال میں داخل ہوئے جسے فائرنگ روم کہتے ہیں۔ یہ تھیڑ نما ہال ہے جس میں ایک طرف عمودی کرسیاں لگی ہوئی ہیں اور دوسری طرف وہی کنسول لگا ہوا ہے جسے اپالو 8 کے اڑان کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ اس میں بہت سارے کمپیوٹر اور کرسیاں لگی ہوئی ہیں جہاں سائنس دان اور دوسرا عملہ بیٹھ کر خلا میں اپالو 8 کے ساتھ رابطہ رکھے ہوئے تھے۔ اس کے اوپر بڑا سکرین لگا ہوا ہے جس میں 1968ء کو اپالو 8 کے اڑان اور چاند پر اترنے کا عمل اور نیچے زمین پر کنسول میں موجود عملے کی گہما گہمی دکھائی گئی۔
اس کے بعد ہمیں مرکزی بڑے ہال میں لے جایا گیا جہاں دیو قامت شٹل اور راکٹ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ یہاں چاند پر اترنے والے پہلے خلا باز نیل آم سٹرانگ ، ان کے استعمال کی چیزیں سیچرون وی راکٹ کو نمائش کے لیے لگایا گیا ہے۔ مَیں جب یہاں خلائی راکٹوں اور دوسری مشینوں کو دیکھ رہا تھا، تو محسوس کیا کہ دنیا کی اقوام سائنس اور ٹیکنالوجی میں کتنا آگے جا چکی ہیں جو زمین کو تو مسخر کرچکے ہیں اور اب خلا کو مسخر کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہاں ہم نے چاند سے لائے گئے پتھر کے ٹکڑے کو بھی مس کیا اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد واپس فلوریڈا ٹوڈے کے آفس روانہ ہوئے۔
(جاری ہے)
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔