آدمی لائق تھا اور باصلاحیت اور تجربہ کار بھی۔ پھر یہ کہ اس میں ملکی انتظام چلانے کی پوری صلاحیت بھی موجود تھی۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو اس کی اس کی صلاحیتوں کا علم ہوا، تو اسے کسی جگہ کا حاکم بنایا۔
اتفاقاً چند دنوں بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے ایک شخص ملا اور باتوں باتوں میں اُس شخص کا تذکرہ ہونے لگا، جسے آپ نے کسی شہر کا حاکم بنایا تھا۔ خلیفہ کو ملاقاتی نے بتایا کہ تو حجاج بن یوسف کے زمانے میں کسی شہر کا حاکم تھا۔ ملاقاتی نے بتایا کہ ’’جناب ! بالکل اگر آپ کو کسی قسم کا شک و شبہ ہو، تو اس شخص کو بلا کر میری بات کی تصدیق کرسکتے ہیں۔‘‘
حضرت نے فوراً اس حاکم کو دارالخلافہ طلب کیا۔ حاضر ہوتے ہی آپ نے اس سے دریافت کیا کہ ’’کیا تم حجاج بن یوسف کے زمانے میں بھی کسی شہر کے حاکم تھے؟‘‘ اس نے کہا، جی ہاں۔ یہ بات سنتے ہی خلیفہ نے اُسے فوراً معزول کیا۔
اس نے عرض کیا، ’’حضور! میں تو چند دنوں کے لیے حجاج کے دور میں حاکم رہا ہوں۔ زیادہ عرصہ اس کی ملازمت نہیں کی۔‘‘
خلیفہ نے کہا کہ برا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ تو اس کے ساتھ ایک دن یا اس سے بھی کم وقت رہا ہو۔ کیوں کہ پاس رہنے سے صحبت کا اثر لازماً پڑتا ہے۔ جو متقیوں کے ساتھ رہتا ہے، اس پر تقویٰ کا اثر پڑتا ہے اور جو ظالموں کے ساتھ رہتا ہے، اس پر فسق و فجور اور ظلم و جبر کا اثر غیر محسوس طریقے سے پڑتا ہے۔ آنحضرتؐ کا ارشادِ مبارک ہے کہ صالح آدمی کے ساتھ بیٹھنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مشک والے کے پاس بیٹھا ہو کہ اگر مشک نہ بھی ملے، تو بھی اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتا ہے اور برے ساتھی کی مثال آگ کی بھٹی کی سی ہے کہ اگر چنگاری نہ بھی پڑے، تو سونگھنا ہی پڑتا ہے۔
خلیفہ نے یہ کہا اور اس حاکم کو فوراً معزول کردیا کہ تونے ایک ظالم حکمران کی خدمت کی تھی۔
اس حوالہ سے فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ
صحبت صالح ترا صالح کند
صحت طالع ترا طالع کند
یعنی اچھی صحبت تجھے نیک اور بری صحبت برا بنائے گی۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔