پانی کے لیے ترستا میرپور

ڈھائی بلین ڈالر کی خطیر رقم سے تعمیر ہونے والے مجوزہ ’’کوہالہ ہائیڈرو پاؤر‘‘ پروجیکٹ کے خلاف جاری مہم محض اتفاق نہیں بلکہ اس کا ایک طویل اور تلخ پس منظر ہے۔ میرپور آزاد کشمیر کا وہ شہر ہے جس کے سینے پر 60ء کی دہائی میں منگلا ڈیم تعمیر کیا گیا۔ ہزاروں خاندان اجڑے۔ آبا و اجداد کی قبریں پانی میں بہہ گئیں۔ مساجد، خانقاہیں اور درجنوں درگاہیں بھی جو شہریوں کی عقیدت اور محبت کا مرکز و محور تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔ میرپور محض ایک شہر کا نام نہیں تھا بلکہ ایک پوری تہذیب اس کے گرد بستی تھی۔ پاکستان سے محبت کے نام پر لوگوں نے خوشی خوشی اسے دریا برد کر دیا۔
صدر ایوب خان نے میرپور کے باسیوں سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں بجلی رعایتی نرخوں پر ملے گی۔ ڈیم سے پیدا ہونے والے وسائل میں وہ شراکت دار ہوں گے۔ آبپاشی اور پینے کے لیے وافر پانی دستیاب ہوگا۔ ڈیم مکمل ہو۱۔ واپڈا حکام نے بوریا بستر سمیٹا اور لاہور چل پڑے۔ بقول ابن انشا :
ہم چپ رہے، کچھ نہ کہا، منظور تھا پردہ تیرا
2003ء میں واپڈا نے منگلا ڈیم کی اَپ ریزنگ کی تجویز پیش کی۔ ملک توانائی کے سنگین بحران سے دوچار تھا، چناں چہ جنگی بنیادوں پر منگلا  ڈیم کی توسیع کا فیصلہ کیا گیا۔ مخالفانہ عوامی ردِعمل دیکھ کر صدر پرویز مشرف نے میرپوریوں سے وعدہ کیا کہ ان کے تمام مطالبات پر عمل درآمد کو وہ یقینی بنائیں گے۔ باضابطہ طور پر یقین دہانی کرائی کہ وفاقی حکومت منگلا ڈیم میں ماہی گیری، سیاحت، کشتی رانی کے حقوق کے علاوہ پینے اور آبپاشی کے لیے پانی کی فراہمی کی ضامن ہوگی۔
صدر پرویز مشرف کی ہدایت پر وفاقی اور آزاد جموں و کشمیرکی حکومتوں اور واپڈا کے مابین ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ جسے ’’منگلا ڈیم اَپ ریزنگ پراجیکٹ 2003ء‘‘ کا نام دیا گیا۔ معاہدے میں طے پایا کہ میرپور شہر اور قرب و جوار کے دیہاتوں کو 126 کیوسک پینے کے پانی کی فراہمی ا یگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ روبہ عمل لائی جائے گی۔ یہ بھی طے پایاکہ آبپاشی اور مویشیوں کے لیے 486 کیوسک پانی ’’ارسا‘‘سے منظوری کے بعد فراہم کیاجائے گا۔ ماضی کے تلخ تجربات کے پیشِ نظر اور مستقبل میں تنازعات یا غلط تشریح سے بچنے کی خاطر آزاد کشمیر کی حکومت نے اصرار کیا کہ وفاقی حکومت باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے 126 کیوسک پینے کے پانی کی فراہمی کا اعلان کرے۔ قانون و پارلیمانی امور کی وزارت کے ساتھ مشاورت کے بعد وفاقی حکومت نے 2006ء میں حکومتِ آزاد کشمیر کو مطلع کیا کہ 126 کیوسک کے پینے کے پانی کی منظوری واضح اور حتمی ہے۔ مزید منظوری کی ضرورت نہیں۔
فیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) سے 7 ارب روپے کی خطیر لاگت سے 10 کلومیٹر طویل پائپ لائن، اسٹوریج کے لیے ٹینکس، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ، پمپنگ کا نظام اور عملے کے لیے ایک رہائشی کالونی سمیت بنیادی ڈھانچا تعمیر کیا گیا، تاکہ جلد ازجلد میرپور شہر تک پینے کا پانی پہنچایا جاسکے۔
افسوس! منصوبے کا تقریباً 80 فیصد کام مکمل کیا جاچکا، تو نہ جانے واپڈا حکام کو کیا سوجھی کہ میرپور کو پینے کا پانی فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کی منظوری کے لیے یہ مقدمہ پیش کر دیا۔ آزاد کشمیر کی حکومت اور شہریوں میں غم و غصے کی لہر اٹھی۔ یہ احساس عام ہوا کہ منگلا ڈیم کی اَپ رائزنگ کے بعد واپڈا نے ان سے بدعہدی کی۔
حکومتِ آزاد کشمیر نے درجنوں مرتبہ وفاقی حکومت کو یاد دلایا کہ وہ پینے کا پانی ایک سرکاری حکم نامہ کے ذریعے میرپور کو فراہمی کا صرف وعدہ ہی نہیں کرچکی بلکہ سہ فریقی معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کی ضامن بھی ہے۔ پیشِ نظر رہے کہ عسکری حکام نے واپڈا اور حکومتِ آزاد کشمیر کے درمیان معاہدے کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، بلکہ ہر اہم اجلاس میں کور کمانڈر منگلا شریک ہوتے رہے، تاکہ حکومتِ آزاد کشمیر کا اعتماد قائم رہے۔
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی وفاق کے پالیسی ساز اداروں میں گلگت بلتستان کی طرح نمائندگی نہیں۔ ریاستِ جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے باعث ان دونوں خطوں کو پارلیمنٹ سمیت وفاقی اداروں میں نمائندگی نہیں دی گئی۔ وفاقی حکومت ہی ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ ان کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔ میرپور کو پینے اور آبپاشی کے لیے پانی کی فراہمی کا مقدمہ ’’کونسل آف کامن انٹرسٹ‘‘ میں پیش ہوا، تو سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا نے پانی فراہمی کے راستے میں روڑے اٹکائے۔ عذر ترشا کہ آزاد کشمیر ’’ارسا‘‘ کا رکن نہیں۔ لہٰذا اسے پانی فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے خطے میں پھیل گئی۔ وزیرِ اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے عوامی جذبات کو زبان دی اور استفسار کیا کہ کیا دریائے جہلم سندھ سے اُبلتا ہے یا کشمیر کی وادیوں سے ؟
واپڈا حکام کے اس منفی طرزِ عمل نے گذشتہ کئی برسوں سے جہاں میرپور کے شہریوں کو پینے کے پانی سے محروم رکھا، وہاں مظفر آباد اور اسلام آباد کے درمیان بداعتمادی کی دراڑ کو مزید گہرا کیا۔
حکومتِ آزاد کشمیر کا مؤقف ہے کہ 2003ء معاہدے کے مطابق واپڈا کو جڑی کس ٹنل سے میرپور کو پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ کسی دوسرے فورم سے اجازت کے لیے رجوع کرنا غیر ضروری ہے۔ علاوہ ازیں وزیرِ اعظم فاروق حیدر کہتے ہیں کہ پانی کے استعمال پر کشمیریوں کا حق فائق ہے۔ دریاؤں کا منبع کشمیر ہے، نہ کہ سندھ یا بلوچستان۔
فاروق حیدر چاہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان ذاتی دلچسپی لے کر یہ مسئلہ حل کرائیں۔ کیوں کہ اس ایک مسئلہ نے وفاقی اداروں کے طرزِ عمل پر آزاد کشمیر میں گہرے شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں، جو قومی وحدت کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔
نیلم جہلم منصوبے کی تعمیر کے وقت بھی بہت سارے وعدے کیے گئے، جو ہنوز ایفا نہیں کیے جاسکے۔ چناں چہ چین کی ایک کمپنی نے 1124 میگاواٹ کا کوہالہ منصوبہ شروع کرنا چاہا، تو اس کے خلاف زبردست عوامی مزاحمت ابھری۔ اگر واپڈا نے نیلم جہلم منصوبے میں فنی سقم نہ چھوڑے ہوتے، تو کوہالہ جیسے عظیم قومی منصوبے پر کب کی تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہوتیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان ماضی کی سیاسی تلخیوں کو فراموش کریں۔ مظفر آباد تشریف لائیں، اور ’’قصۂ زمیں برسرِزمیں‘‘ کے مصداق معاملہ حل کریں۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔