کیا مودی سرکار پاکستان کے خلاف صرف ’’سیاسی فائدہ‘‘ اٹھانا چاہتی ہے یا پھر اس کے علاوہ بھی کوئی ’’مفادات‘‘ ہیں؟ اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے خلاف جارحیت اور دشنام طرازی کے بعد بھارت کے بیانیے میں دنیا کو گمراہ کرنے کے لیے نئی اسٹریٹجک پالیسی سامنے آئی ہے۔ بھارت دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے پاکستان میں کامیاب مبینہ کارروائی کی، لیکن پاکستانی ادارے، میڈیا کو اُس جگہ پر رسائی نہیں دے رہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے اس بیانیہ پر سر دھننے کا علاوہ مزید کیا کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں اُن کے جھوٹ کا پول پہلے ہی دن کھل چکا تھا۔ اب بھارت چاہے جتنا شور کرنا چاہے کرتا رہے۔ یوں مودی سرکار اپنی بھارتی عوام کو بھی اندھیرے میں رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے مبینہ جگہ کو جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔ میڈیا وہاں سے کوریج کرچکا ہے۔ بھارت کیوں بھول جاتا ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ نے ہی تو سب سے پہلے مقامی شہری کا انٹرویو نشر کیا تھا، جس سے بھارت کے جھوٹ کا پول کھل چکا تھا۔ بہرحال مودی سرکار شرمندہ ہونے کی بجائے کئی سازشی منصوبوں پر بیک وقت کام کر رہی ہے۔
مودی کا پہلا سب سے اہم ٹارگٹ اقتدار کا حصول ہے، جس کے لیے پلوامہ اور سمجھوتا ایکسپریس جیسے کئی واقعات بھی مودی سرکار کو دھرانا پڑے، تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اقتدار کے بعد آئین میں تبدیلی سے مزید اختیار ات حاصل کرنا چاہے گا، تاکہ ہندو انتہا پسندوں کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔
لڑاکا ایف 16 طیارے بنانے کے لیے امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن اور بھارت کی کمپنی ’’ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹمز‘‘ کا ایک معاہدہ طے ہوا تھا، جس کے تحت ایف 16 طیارے بھارت میں تیار کیے جائیں گے، جس کی توثیق اُس وقت ہوئی جب ’’ٹو پلس ٹو‘‘ معاہدے کے تحت بھارت اور امریکہ نے ستمبر 2018ء میں ایک اہم دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جس سے انتہائی جدید ترین، حساس دفاعی سازو سامان اور امریکی ٹیکنالوجی بھارت کو فروخت کرنے کا راستہ ہموار ہوا۔ ’’میڈ اِن انڈیا‘‘ کے پروگرام سے مودی سرکار خطے میں خطرناک جنگی ساز و سامان تیار کرنے کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
بھارت نے جہاں ایک طرف چین اور افغانستان کے ساتھ امریکی تنازعہ کا فائدہ اٹھایا، تو دوسری جانب بھارت نے امریکی دباؤ کے باوجود روس کے ساتھ پانچ بلین ڈالر مالیت کے ’’ایس 400‘‘ طرز کے ایئرڈیفنس میزائل نظام خریدنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ گو کہ امریکہ نے بھارت کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ’’ایس 400‘‘ کو خریدنے سے باز رہے۔ واضح رہے کہ ترکی نے جب ایس 400 ائیر ڈیفنس میزائل نظام روس سے خریدنے کا معاہدہ کیا، تو امریکہ نے اعلان کیا کہ ترکی کو ’’ایف35‘‘جنگی طیارے نہیں دے گا۔ دراصل امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی ساڑھے 3 ارب ڈالر کا ’’پیٹریاٹ میزائل سسٹم‘‘ امریکہ سے خریدے۔ یہی آفر امریکہ نے بھارت کو بھی دی تھی، لیکن بھارت نے روس سے معاہدہ کرلیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مودی سرکار رافیل طیارے اسیکنڈل میں اربوں ڈلر کی کر پشن اور اقربا پروری کے دباؤ میں ہے، لیکن مودی سرکار بھارتی عوام کی ذہن سازی کرچکی ہے کہ بھارتی فوجی طاقت کے لیے نئے جنگی ساز و ساما ن کی ضرورت ہے۔ ’’مگ 21‘‘ کو بھارتی میڈیا ’’تابوت ‘‘ قرار دے چکا ہے، کہ یہ طیارے ہندوستانی خواتین کو’’بیوہ‘‘ بنانے کا کام کر رہے ہیں۔ دنیا میں جنگ کروانے کی ماہر اور جنگی ساز و سامان کی فروخت سے چلنے والی امریکی معیشت دنیا میں ایک نئے جنگی سلسلے کو جاری رکھنے پر عمل پیرا ہے۔ شام، عراق اور افغانستان کے بعد جنگی ساز و سامان فروخت کرکے اپنے خزانے بھرنے والی عالمی طاقتیں اب سعودی عرب، ترکی، چین، جنوبی کوریا اور پاکستان میں عدم تحفظ کو پروان چڑھا کر خطے میں جنگی ساز و سامان کے خرید و فروخت کی نئی دوڑ شروع کرنا چاہتی ہیں۔
مودی سرکار فی الوقت انتخابات کی وجہ سے پاکستان کے خلاف جنگی مہم جوئی نہیں کرنا چاہتا۔ کیوں کہ پاک، بھارت جنگ سے بھار ت میں عام انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ مودی سرکار صرف جنگی ماحول قائم رکھنا چاہتی ہے اور اقتدار کے لیے اوچھے ہتھکنڈے ضرور استعمال کرسکتی ہے۔ بھارتیہ جتنا پارٹی اپنی انتخابی مہم میں ’’ابھے نندن‘‘ کی تصاویر بھی استعمال کررہی ہے۔ تاہم سوشل میڈیا میں شدید تنقید کے بعد بھارتی الیکشن کمیشن نے سیاسی انتخابات میں فوج سے متعلقہ تصاویر کے استعمال پر تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی ہے، لیکن پابندی کے باوجود سوشل میڈیا میں جس طرح مودی سرکار کے ہندو انتہا پسند جنگی طیاروں، پلوامہ اور ابھی نندن کو استعمال کر رہی ہے، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار کے مقاصد کیا ہیں؟
مودی سرکار دوبارہ اقتدار میں آکر عالمی قوتوں کے مقاصد کی تکمیل اور پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم کو کامیاب بنانے کے لیے جنگ کا راستہ بھی ہموار کرسکتی ہے۔ گر جنگ نہ بھی ہو، تو کھربوں ڈالر کے جنگی ساز و سامان کے معاہدوں پر عمل درآمد شروع ہوجائے گا، اور پھر یقینی طور پر خطے میں جنگی ساز و سامان کی خرید و فروخت کی نئی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ اسے ہم سعودی عرب کی موجودہ صورتحال سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ سعودی عرب اس وقت اپنے عدم تحفظ کی وجہ سے دنیا میں جنگی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔ عالمی قوتوں نے سعودی عرب کو اس طرح الجھا دیا ہے کہ سعودی عرب کے مالی وسائل اب جنگی ساز وسامان کے لیے صرف ہو رہے ہیں۔ ایران و سعودی عرب کے ساتھ قطر اور متحدہ عرب امارات کے مالی وسائل بھی جنگی ساز و سامان کی خریداری کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں عالمی قوتوں نے عرب ممالک کے خلاف اسرائیل کو ’’ہوا‘‘ بنایا ہوا ہے، تو دوسری طرف جنوبی و مشرقی ایشیامیں بھارت کو’’استعمال‘‘ کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد جاری ہے۔
مودی سرکار، بھارت میں ہندو انتہا پسند سیاست میں کلیدی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی عوام کی اکثریت ہوش کی بجائے جوش سے کام لے رہی ہے۔ مودی سرکار مکمل طور پر ’’چانکیہ سیاست‘‘ پر عمل پیراہے۔ عوام میں خطرناک حد تک جنگی جنون کا یہ عالم کر دیا ہے کہ کرکٹ جیسے کھیل کو بھی فوج کی طرح سیاست کے لیے استعمال کیا گیا۔ مودی سرکار ایڈونچر کے ذریعے یقینی طور پر پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرنا چاہتی ہے۔ خاص طور پر افغان امن تنازعہ حل میں بھارت کی رکاوٹیں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ 25 فروری سے مسلسل افغان طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے، لیکن واضح نظر آ رہا ہے کہ افغانستان میں فوجی انخلا پر ٹرمپ انتظامیہ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر نہیں۔
مودی سرکار کی ’’چانکیہ سیاست‘‘ پر پاکستانی سیاسی قیادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں صرف کسی سانحہ یا ملک دشمن اقدامات پر ہی ایک پیچ پر آنے کے علاوہ اپنے تمام اختلافات کو بھی قومی مفاد میں ایک طرف رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکمراں جماعت کو اپوزیشن کے ساتھ مسلسل رابطوں کی ضرورت ہے۔ عمران خان بھارت کے ساتھ جلد ازجلد مذاکرات کے لیے عجلت کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں۔ بلاشبہ پاک، بھارت مذاکرات ضروری ہیں، لیکن انہیں قومی وقار کا خیال رکھنا چاہیے۔ بھارت سے مذاکرات اہم ہیں، لیکن پارلیمنٹ میں جس طرح ’’ابھے نندن‘‘ کی رہائی کے لیے رابطہ نہ ہونے کا انکشاف کیا، اس کا ذکر پارلیمان میں کرنا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم سے رابطے تو بھارتی انتخابات کے بعد ہی ممکن نظر آرہے ہیں، تاہم اس وقت ضروری ہے کہ عمران خان اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں۔ کیوں کہ یہ پاکستان کے حق میں بہتر عمل ہوگا۔
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔