یہ بنیادی طور پر شاعری کی اصطلاح ہے۔ ایسی شاعری جس میں شراب اور متعلقاتِ شراب کا بکثرت ذکر ہو، اسے "خُمریات” کہتے ہیں۔
فارسی میں حافظ شیرازی، عمر خیام اور اردو میں ریاضؔ خیر آبادی، جگرؔ مراد آبادی، عبدالحمید عدمؔ، ساغرؔ صدیقی اور جوشؔ ملیح آبادی کے ہاں خُمریات کے شان دار نمونے ہیں۔ ریاضؔ خیر آبادی کی تقریباً ساری شاعری خُمریات پر مبنی ہے۔
شعرا نے شراب کو علامت کے طور پر بھی استعمال کیا ہے اور اس سے مراد عرفانِ ذاتِ الٰہی لیا ہے۔ اسی طرح خم و پیمانہ، ساغر، ساقی، میکدہ، صراحی، جام کے الفاظ کے ذریعے متصوفانہ مضامین بیان ہوئے ہیں۔ اقبالؔ کے ہاں متعلقاتِ شراب کے استعاروں سے سماجی اور سیاسی مسائل کا بیان کیا گیا ہے۔ اقبالؔ ایک پوری غزل نما نظم جس کی ردیف ساقی ہے، ملاحظہ ہو:
دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دلِ ہر ذرّہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ادبی اصطلاحات مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن، صفحہ نمبر 99 سے انتخاب)