دا سوک چی جنگ غواڑی، دَ جنگ د زورہ نہ دی خبر

پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کے بعد جب ابھی جنگ شروع بھی نہیں ہوئی تھی، تو اس وقت سوشل میڈیا پر گھمسان کا رَن پڑ چکا تھا۔ ہم نے سوات میں ایک چھوٹی سی جنگ دیکھ رکھی ہے۔ سوات میں دو تین سال رہنے والی مذکورہ جنگ کے معاشی و سماجی اثرات آج کئی سال بعد بھی دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ایک رپورٹر کی حیثیت سے مَیں نے سوات کی جنگ کو قریب سے دیکھا ہے۔ آج بھی اس دور کی تلخ یادیں ذہن پر اَن مٹ نقش چھوڑے محسوس ہوتی ہیں۔ خاص کر تنہائی میں جب وہ مناظر یاد آتے ہیں، تو بدن میں سنسنی سی دوڑ جاتی ہے۔ خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں (سوات، ملاکنڈ ڈویژن، باجوڑ، مہمند، خیبر، وزیرستان) میں اپنوں کے درمیان ہونے والی جنگ میں عام ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ آج بھی وہ پختون علاقے تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں اور ان کے لوگ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
قارئین، یہ تھا ایک چھوٹی سی جنگ کا قصہ، جس نے پختونوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا اور معاشی طور پر انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ جب کہ پاکستان اور بھارت تو دونوں ایٹمی قوتیں ہیں۔ دونوں کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ اگر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑتی ہے، تو جو بھی ملک کمزور ہوگا، وہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ضرور کرے گا، جس کے جواب میں مخالف ملک بھی ایٹمی ہتھیاروں ہی کا استعمال کرے گا۔ اس اندازے اور حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاک بھارت کشیدگی کے آغاز کے ساتھ ہی باقی امن پسند لوگوں کی طرح مَیں نے بھی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بغیر ایٹمی ہتھیاروں کے جنگ زدہ ایک شہر کی تباہ حال تصویر شیئر کی۔ اس پوسٹ کے اوپر یہ مصرعہ تحریر کیا: "دا سوک چی جنگ غواڑی دَ جنگ دَ زورہ نہ دی خبر! (یعنی جو جنگ کے حق میں ہیں، وہ جنگ کی تباہی سے بے خبر ہیں) اس تصویر پر ڈھیر سارے جذباتی اور اپنے ملک سے پیار کرنے والے دوستوں اور بھائیوں نے تبصرے کیے۔ جذباتی انداز میں بعض دوستوں نے یہ بھی لکھا کہ "جنگ ہونے دو، تاکہ بھارت کو ہماری طاقت کا اندازہ ہوجائے۔” کچھ دوستوں نے اور قسم کے جملے تحریر کیے۔
قارئین، جس طرح میں نے اوپر ذکر کیا کہ یہ دو عام ممالک اور عام ہتھیاروں کی جنگ نہیں ہوگی، بلکہ یہ ایٹمی جنگ ہوگی اور اس جنگ میں دونوں جانب سے صرف اور صرف تباہی کا سامان ہی ہوگا۔ خدانخواستہ اگر دونوں ملک ایک دوسرے پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کر دیں، تو صدر اور وزیر اعظم اپنے وزرا سمیت اس جنگ میں نہیں مریں گے۔ کیوں کہ ان کے لیے ان کے محلات میں ایسی جگہیں بنائی گئی ہیں، جہاں وہ ایٹمی ہتھیاروں کی بُو سے بھی محفوظ رہیں گے۔ اس جنگ میں اگر کوئی مرے گا، تو وہ ہوں گے عام لوگ یعنی مَیں اور آپ! اس جنگ میں اگر کسی کی تباہی ہوگی، تو وہ میری اور آپ کی ہوگی۔ پاکستان اور بھارت کے پاس اس وقت کئی ٹن وزن کے کیمیائی ہتھیار ہیں۔ خدانخواستہ اگر بھارت کراچی کو نشانہ بناتا ہے اور 60 کلو ٹن نیوکلیر بم کراچی پر گرا تا ہے، تو چند ہی لمحوں میں کراچی میں کم سے کم 2 لاکھ انسان جھلس کر بھسم ہوجائیں گے اور کچھ ہی سیکنڈز میں تین لاکھ سے زائد انسان بری طرح زخمی ہو جائیں گے۔ جن میں سے بیشتر کچھ عرصہ بعد تڑپ تڑپ کر مر جائیں گے۔ اگر جواب میں پاکستان بھارتی شہر ممبئی پر 40 کلو ٹن کا بم گراتا ہے، تو چند ہی لمحوں میں 7 لاکھ انسان بھسم ہو جائیں گے اور 12 لاکھ سے زائد انسان بری طرح زخمی ہو جائیں گے، جن میں سے بیشتر کچھ عرصہ بعد ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائیں گے۔
اس طرح اگر بھارت 60 کلوٹن کا نیوکلیئر بم اسلام آباد پر گرائے گا، تو چند لمحوں میں 1 لاکھ 50 ہزار انسان مر جائیں گے اور 3 لاکھ سے زیادہ افراد بری طرح جھلس کر زخمی ہو جائیں گے۔ اگر پاکستان 40 کلو نیوکلیئر بم دہلی پر گرائے گا، تو چند لمحوں میں دہلی میں 4 لاکھ انسان مر جائیں گے اور 14 لاکھ انسان جھلس کر بری طرح زخمی ہو جائیں گے۔
قارئین، اس قبیل کے نیوکلیئر بم پاکستان اور بھارت کے پاس ڈھیر سارے موجود ہیں، جن سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے بڑے شہروں پر حملہ کرسکتے ہیں۔ اس سے آبادی کے لحاظ سے اتنا ہی بڑا نقصان ہوگا جتنا مثال کے طور پر کراچی اور اسلام آباد کا رقم کیا جا چکا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ ان حملوں سے انسان ہی مرجائیں گے، یا زخمی ہوں گے بلکہ ان حملوں سے زمین پر زہر پھیل جائے گا، جس کا اثر صدیوں تک ختم نہیں ہوگا۔ ان حملوں سے زرعی زمین میں زہر بھر جائے گا اور زراعت کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ اگر دونوں ممالک اس طرح کے 20 نیوکلیئر بم ایک دوسرے پر گراتے ہیں، تو اس سے 50 لاکھ ٹن دھواں بادل سے اوپر آسمان کی سطح پر پھیل جائے گا، جس کی وجہ سے ایک عرصے تک کئی ممالک پر سورج کی شعاعیں نہیں پڑ سکیں گی، جس کی وجہ سے کئی ممالک میں فصل نہیں اُگے گی۔ دنیا بھر میں 20 فی صد بارشیں ختم ہو جائیں گی۔ اس طرح زراعت اور جنگلی حیات کئی ممالک میں ختم ہو جائے گی۔ مون سون کی بارشیں ختم ہو جائیں گی اور دونوں ممالک اور پڑوسی ممالک میں سکن کینسر کے مریضوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ یہاں تک کہ کیڑے مکوڑے ختم ہو جائیں گے۔
اسلحہ بیچنے والے ممالک ترقی یافتہ ہیں جب کہ اسلحہ خریدنے والے ترقی پذیر۔ جنگ سے فائدہ صرف اسلحہ بیچنے والے ممالک کو ہوتا ہے اور خریدنے والوں کے عوام بدحالی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے مَیں جنگ کی مخالفت کرتا ہوں، سب کچھ امن سے ممکن ہے۔ پاکستان اور بھارت کی علیحدگی کے بعد سے اب تک دونوں ممالک ہر سال سب سے زیادہ پیسہ دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر دونوں ممالک ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیں اور عہد کرلیں کہ ہم دوستوں کی طرح امن سے رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کریں گے، تو یقین جانیں کہ دونوں ممالک اپنے دفاع کا بجٹ عوام کی فلاح و بہبود خاص کر بھوک و افلاس مٹانے، تعلیم، صحت، مواصلات، زراعت و دیگر شعبوں میں خرچ کریں گے۔ پھر چند سال بعد دونوں ممالک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوں گے۔ چند سالوں بعد دونوں ممالک کے سو فی صد لوگ تعلیم یافتہ ہوں گے۔ کچھ عرصہ بعد لوگ نوکری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو ترجیح دیں گے۔
جنگ کوئی کھیل نہیں۔ ذرا اپنے پڑوسی ملک افغانستان کو دیکھ لیں۔ جنگ سے پہلے افغانستان میں مغربی ممالک سے لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ آج وہاں کیا حال ہے؟ اس لیے میری یہی درخواست ہے کہ سب جنگ کے خلاف اور امن کے لیے کھڑے ہو جائیں۔ کیوں کہ جنگ تباہی اور امن خوشحالی ہے۔

…………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔