ضابطۂ قانون I آف 1969ء کے تحت ریاستِ سوات کے سابق ملازمین، حکومتِ مغربی پاکستان کے ملازمین بنوائے گئے جیسا کہ اس ضابطہ کی ایک شق کی ذیلی شق بہ عنوان "سابقہ ریاستوں کے ملازمین کی ملازمتوں کا تبادلہ” میں بیان کیا گیا ہے۔
"وہ تمام افراد جو کہ اس ضابطہ کے آغاز سے قبل کوئی شہری عہدہ یا ملازمت رکھتے تھے۔ اس میں وہ ملازم بھی شامل ہیں جو امن وامان قائم رکھنے کے لیے موجود فوج کے ملازم تھے اور صراحت شدہ علاقوں کی انتظامیہ کے تحت خدمات بجا لا رہے تھے۔ ان سب کو ضابطہ کے لاگو ہونے سے مغربی پاکستان کے ملازم گردانا جایا جائے گا۔”
لیکن آنے والی ذیلی شق (2) میں اسے مشروط کر دیا گیا تھا۔ "باوجود یہ کہ قانون، ضابطہ، حکم یا ہدایت جس کا اطلاق وقتی ہو یا ملازمت کی طے شدہ شرائط اس کے خلاف کیوں نہ ہوں، پھر بھی وہ لوگ جن کا حوالہ شق (1) میں دیا گیا ہے، ان کی ملازمتوں کے بارے میں صوبائی حکومت ایسے شرائطِ کار طے کر سکتی ہے جن کا اطلاق اُن پر ہوگا۔”
ملازمین کی ملازمتوں کی ہئیت بدلنے اور نئے قوانین و ضوابط کی تشکیل اور نیا معیار بنانے سے پہلے ہی ڈپٹی کمشنر سوات نے 9 نومبر 1970ء کو پاکستانی قانون کو آڑ بنا کر مختلف شعبوں میں مختلف عہدوں پر تعینات ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو جبراً ریٹائر کر دیا۔ سابقہ ریاستی قوانین کو بہانہ بنا کر پاکستانی قوانین کے مطابق پنشن اور دیگر فوائد کے ان کے حق سے بھی انہیں محروم کر دیا گیا۔ کچھ لوگوں کو بغیر کسی مناسب وجہ کے ان کی ملازمتوں سے محروم کر دیا گیا۔ ایسا سب کچھ یحییٰ خان کی اُن یقین دہانیوں کے باوجود کیا جا رہا تھا جو کہ ادغام کے وقت اُس نے کرائی تھیں۔
سرکاری ملازمین کو صوبائی تنظیم میں کھپانے میں تاخیر سے لوگوں میں خوف اور بے چینی پھیل گئی۔ کسی دل جلے کا یہ کہنا بالکل صحیح تھا کہ حکومت نے اسکول، کالج، اسپتال اورڈسپنسریوں کو تو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے، لیکن ان جگہوں پر ملازمت کرنے والوں کو ابھی پاکستانی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ یوں گویا سرکاری اداروں میں پرائیویٹ اساتذہ خدمات انجام دے رہے ہیں جو کہ تمام منطقی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
1971ء میں مندرجہ ذیل اطلاع نامہ کے ذریعہ یکم جنوری 1971ء سے سابقہ ریاستی ملازمین کو صوبائی ملازموں میں شامل کر لیا گیا۔ دیکھیے اطلاع نامہ نمبر پی ایس/ او ایس/ این ڈبلیو ایف پی 70/1-17، تاریخ 01/01/1971 کا پیراگراف 11 لیکن سب ریاستی ملازمین کو صوبائی ملازمتوں میں جذب نہیں کیا گیا تھا۔ ایسا کرنے میں تأخیر کرکے کچھ کو برخواست اور بہت سوں کو جبری ریٹائر کر دیا گیا اور جن کو صوبائی ملازمتوں میں جذب کیا گیا ان کی درجہ بندی مقرر کرنے میں تاخیر سے ان کو مزید پریشانی میں مبتلا کردیا گیا۔
سابقہ ریاستی ملازموں کو موجودہ کے ساتھ ساتھ مزید حقوق، سہولیات اور رعایات دینے کی یقین دھانیاں غلط ثابت ہوئیں۔ انہوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف قسم کی انجمنیں قائم کیں۔ ان تمام انجمنوں کو ایک پلیٹ فارم کے تحت لاکر متحدہ جدوجہد کے لیے سوات ایمپلائز ایسوسی ایشن قائم کی گئی۔ جلوس نکالے گئے۔ احتجاج کیا گیا۔ ریاستی ملیشا نے ملاکنڈ درہ تک مارچ کیا۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 48-247 سے انتخاب)