امیجری

کسی امیج کو زبان دینا امیجری (Imagery) ہے۔ اسے تصویر آرائی یا تمثیل آفرینی بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ زبان خواہ رنگوں کی ہو یا حرفوں کی، تراش خراش اور تہذیب کی ہو یا اشارتی اور علامتی، آواز و آہنگ کی ہو یا خطابت کی تمثال آفرینی کا یہ عمل کسی زبان کے تابع ہے۔
ادبی اصطلاح میں ’’امیجری‘‘ جمالیاتی تنقید کی علامت ہے۔ شاعر یا ادیب الفاظ کے ذریعے سے وہ تصویریں پیش کرتا ہے جو تِہ در تِہ کیفیات کی شکل میں اس کے ذہنی تجربوں میں آتی ہیں اور خارجی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ تخیل یہاں دو طرفہ کام کرتا ہے یعنی لکھنے والے نے تخیل کی بنیاد پر اسے لکھا اور تخیل ہی کی مدد سے پڑھنے اور سننے والوں نے اسے سمجھا۔
ٹی ایس ایلیٹ نے لکھا ہے کہ شاعری میں امیجری صرف مشاہدے سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ معمولی سا اشارہ بھی بڑی زندہ، متحرک اور جان دار امیجری پیدا کرسکتا ہے۔
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ادبی اصطلاحات مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن صفحہ نمبر 46 سے انتخاب)