بدیہہ گوئی

یہ شاعری کی اصطلاح ہے۔ غور و فکر اور تامل و استغراق کے بغیر کسی موقع محل پر فوری شعر موزوں کرنا ’’بدیہہ‘‘ یا ’’بدیہہ گوئی‘‘ کہلاتا ہے اور فی البدیہہ شعر کہنے والے کو ’’بدیہہ گو‘‘ کہتے ہیں۔
اردو شاعری میں بدیہہ گوئی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ امیر خسرو کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے ایک پنھیاری سے پانی مانگا۔ اس نے کہا کہ پہلے کھیر، چرغہ، کتا اور ڈھول کے الفاظ استعمال کرکے شعر کہیں، امیر خسرو نے ارتجالاً کہا
کھیر پکائی جتن سے، چرغہ دیا جلا
آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا، لا پانی لا
میر تقی میرؔ کے سلسلہ میں بھی روایت ہے۔ نوجوانی میں لکھنؤ کے ایک مشاعرے میں وہ اجنبی اور غیر معروف نوجوان شاعر کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ غزل سنانے لگے، تو شور اٹھا: ’’نوجوان، پہلے اپنا تعارف کراؤ!‘‘ میرؔ نے اس طرحی مشاعرے کی ’’طرح‘‘ میں یہ شعر فی البدیہہ پڑھے:
کیا بود و باش پوچھو ہو، پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ’’ادبی اصطلاحات‘‘ مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن، صفحہ نمبر 52 سے انتخاب)