عمران خان صاحب سے معذرت کے ساتھ

عمران خان صاحب سے معذرت کے ساتھ

قومی وطن پارٹی کوتحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے یہ کہہ کر صوبائی حکومت سے الگ کردیا ہے کہ قومی وطن پارٹی کے لیڈر شپ نے پاناما کیس میں اُن کا ساتھ نہیں دیا۔

 قومی وطن پارٹی کی علیحدگی کے بعد خیبر پختونخوا میں صوبائی سطح پر قومی وطن پارٹی کے حصے کی جو وزارتیں تھیں، ظاہری بات ہے کہ اُنہیں پاکستان تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کے ذریعے ہی پُرکیا جائے گا۔ من پسند وزارتوں کے حصول کے لیے تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی نے کمر کس لئے ہیں۔
قومی وطن پارٹی کی علیحدگی کے بعد خیبر پختونخوا میں صوبائی سطح پر قومی وطن پارٹی کے حصے کی جو وزارتیں تھیں، ظاہری بات ہے کہ اُنہیں پاکستان تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کے ذریعے ہی پُرکیا جائے گا۔ من پسند وزارتوں کے حصول کے لیے تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی نے کمر کس لئے ہیں۔

قومی وطن پارٹی کی علیحدگی کے بعد خیبر پختونخوا میں صوبائی سطح پر قومی وطن پارٹی کے حصے کی جو وزارتیں تھیں، ظاہری بات ہے کہ اُنہیں پاکستان تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کے ذریعے ہی پُرکیا جائے گا۔ من پسند وزارتوں کے حصول کے لیے تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی نے کمر کس لئے ہیں۔ کون سی وزارت کس کو دینی ہے؟ یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کرنا ہے، ہم لوگوں نے نہیں۔ لیکن وزارتوں کی تقسیم سے پہلے میں عمران خان صاحب کی تھوڑی سی توجہ کا طلب گار ہوں۔
خان صاحب! اگرہم اپنے کسی مرض کے علاج کے لیے کسی ایسے ڈاکٹرکے پاس چلے جائیں، جس کی بڑی شہرت ہو، اس کا بڑا سا اسپتال ہو مگروہ حقیقی طور پر مرض کاماہرنہ ہو اور اللہ نے اُسے دستِ شفا عطانہ کیا ہو، تو کیا ہم صحت یاب ہوسکتے ہیں؟ اسی طرح جو ڈاکٹر صرف کھانسی بخار کا علاج کرنا جانتا ہو، اس کے پاس اگرہم آپریشن کے لیے چلے جائیں، توکیا وہ ہمارا علاج یا آپریشن کرسکتا ہے؟ کیوں کہ بڑے مرض کے سامنے چھوٹے ڈاکٹر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، لیکن اگر ہم بضد ہوں کہ ہم اُسی چھوٹے ڈاکٹر سے علاج کرائیں گے، کیوں کہ وہ مشہوربھی ہے اور اس کا بڑا سا اسپتال بھی ہے، تو یقینا ہم اپنی موت کا سرٹیفکیٹ لے کر آئیں گے۔ یہ مثال دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ عمران خان صاحب آپ نے ہمیشہ قومی و عوامی مسائل کے حل کے لیے ایسے ہی چھوٹے ڈاکٹروں کو بڑا ڈاکٹر سمجھ لیا ہے اور اس کی اُونچی دُکان دیکھ کراس سے اپنا آپریشن کرانے پربضدہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوامی مسائل جوں کے توں پڑے ہیں، اور رتی بھربھی ان کوحل نہیں کیاجاسکا ہے بلکہ ان چھوٹے ڈاکٹروں کی وجہ سے
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

خان صاحب، آپ ہمیشہ اپنے پیروں پرکلہاڑی نہیں مارتے بلکہ کبھی کبھار اپنے پیروں کو کلہاڑی پر مار دیتے ہیں۔ آپ ہمیشہ حقیقی لوگوں کودوسرے درجے پر رکھتے ہیں اور غیر حقیقی، سطحی اور پرلے درجے کے لوگوں کو پہلے درجے پر بٹھاکر ان کی ذمے داری پر ایک اور مہرِتصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔
خان صاحب، آپ ہمیشہ اپنے پیروں پرکلہاڑی نہیں مارتے بلکہ کبھی کبھار اپنے پیروں کو کلہاڑی پر مار دیتے ہیں۔ آپ ہمیشہ حقیقی لوگوں کودوسرے درجے پر رکھتے ہیں اور غیر حقیقی، سطحی اور پرلے درجے کے لوگوں کو پہلے درجے پر بٹھاکر ان کی ذمے داری پر ایک اور مہرِتصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔

مجھ جیساطفلِ مکتب کیسے بتائے آپ کو کہ کسی بھی مسئلے کاحل اُسی وقت نکلتاہے جب کوئی ماہر اور حقیقی ذمے دار اس کے متعلق اپنی قیمتی رائے دیتا اور اس کا علاج کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ بیمار معاشرے کا ڈاکٹر ہوتا ہے۔ اُسے معلوم ہوتا ہے کہ مرض کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور اس کا علاج کیا ہے؟ خان صاحب آپ نے دراصل انہیں ذمے دار سمجھ لیا ہے جو حقیقی ذمے دار نہیں ہیں۔ کیوں کہ وہ تو شہرت، دولت اور اپنے تعلقات کے پیچھے سرپٹ بھاگنے والے لوگ ہیں۔ اور آپ شہرت سے دھوکا کھانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ آپ ہمیشہ اپنے پیروں پرکلہاڑی نہیں مارتے بلکہ کبھی کبھار اپنے پیروں کو کلہاڑی پر مار دیتے ہیں۔ آپ ہمیشہ حقیقی لوگوں کودوسرے درجے پر رکھتے ہیں اور غیر حقیقی، سطحی اور پرلے درجے کے لوگوں کو پہلے درجے پر بٹھاکر ان کی ذمے داری پر ایک اور مہرِتصدیق ثبت کر دیتے ہیں۔ تحریک انصاف میں یہ وبا دوسری پارٹیوں کے لیڈران کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے اور اس وبا نے آپ کے اُس مشن اور خواب کو نگل لیا ہے جو کہ آپ نے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے لئے دیکھا تھا، اوریہ وبا اب تحریک انصاف کی رگ وپے میں ایسی سرایت کر گئی ہے کہ اس کا علاج بھی ایک بہت بڑامسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔

 ہم ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں اکثر دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی نمائندگی وہ لوگ کر رہے ہوتے ہیں جو اس کے اہل نہیں ہیں یا انہیں جزوی طور پر یا تیسرے چوتھے درجے کا اہل قرار دیا جاسکتا ہے، مگر یہ دنیا چوں کہ دولت کی ہے، شہرت کی ہے، تعلقات کی ہے اورطاقت کی ہے اس لیے یہ سب چل رہاہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب یہ آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔
ہم ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں اکثر دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی نمائندگی وہ لوگ کر رہے ہوتے ہیں جو اس کے اہل نہیں ہیں یا انہیں جزوی طور پر یا تیسرے چوتھے درجے کا اہل قرار دیا جاسکتا ہے، مگر یہ دنیا چوں کہ دولت کی ہے، شہرت کی ہے، تعلقات کی ہے اورطاقت کی ہے اس لیے یہ سب چل رہاہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب یہ آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔

ہم ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں اکثر دیکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی نمائندگی وہ لوگ کر رہے ہوتے ہیں جو اس کے اہل نہیں ہیں یا انہیں جزوی طور پر یا تیسرے چوتھے درجے کا اہل قرار دیا جاسکتا ہے، مگر یہ دنیا چوں کہ دولت کی ہے، شہرت کی ہے، تعلقات کی ہے اورطاقت کی ہے اس لیے یہ سب چل رہاہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب یہ آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔ خان صاحب آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر سوسائٹی میں قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ہمیشہ سے دو طرح کے افراد رہے ہیں۔ ایک وہ جو واقعی ذمے دار ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جنہیں ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔ کمیونٹی کے مسائل حقیقی ذمے داروں سے ہی حل ہوتے ہیں۔ ذمے دارسمجھے جانے والوں سے نہیں۔ اس لیے جب تک اس بات کاتعین نہ کرلیاجائے کہ ذمے دارکون ہے اور ذمے دار نما کون ہے؟ مسائل حل کرنے کا خواب شیخ چلی کے خواب کی طرح ہی رہے گا۔ اس لیے آپ کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ آپ شیخ چلی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ آپ اکثر و بیشترحقیقی ذمے داروں کو اتنی اہمیت دینے کو تیار نہیں جتنی کہ نام نہاد ذمے داروں کو دیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یوں کہہ لیجیے کہ تیسرے اورچوتھے درجے کے لوگوں کو ذمے داروں کی فہرست میں شمارکرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ پھر عوامی مسائل حل کرنے کیلئے بیٹھتے ہیں، مگر مسائل میں اضافہ کرکے ہی اٹھتے ہیں۔ دوا تلاش کرنے جاتے ہیں، مگر مرض میں اضافہ کرکے واپس لوٹتے ہیں۔ آپ سروے کرکے دیکھ لیجیے، آپ کو میرے اس دعویٰ میں سو فی صد صداقت نظرآئے گی ۔ سچائی یہ ہے کہ آپ نے اب تک خیبرپختونخوا کے عوامی مسائل کا حل شہرت، دولت اور تعلقات میں تلاش کیا ہے اور ذمے داروں سے کنارہ کشی کرکے نچلے درجے کے لوگوں کوذمے دار بنایا ہوا ہے۔
خان صاحب! آپ کو خیبر پختونخوا کے عوامی مسائل حل کرانے کے لیے چھوٹے ڈاکٹر نظر آتے ہیں۔کیوں کہ آپ ان کی اُونچی دُکان کے گرویدہ ہیں اور پھیکے پکوان سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جائے؟ کہ ٹی وی اوراخبارات میں جواشتہارشائع ہوتے ہیں، ان میں اکثر و بیشتر بلکہ اس سے بھی زیادہ یہ جھوٹ پرمشتمل ہوتے ہیں۔ سمجھ دار لوگ ان اشتہاری باتوں پر کبھی نہیں آتے، مگر چوں کہ متواتر اشاعتوں سے یہ ہماری نفسیات پرچھائے رہتے ہیں۔ اسی لیے ہماری زبانوں پران کے نام چڑھ جاتے ہیں۔ ٹھیک یہی مثال حقیقی ذمے داروں اور غیرحقیقی ذمے داروں پرصادق آتی ہے، مگر ہماری عقل اس وقت چرنے چلی جاتی ہے جب ہم ان غیر حقیقی ذمے داروں کے اشتہارات پر ایمان لے آتے ہیں اور ان کی سطحی، غیر معیاری اور سرسری تشخیص کو اپنے مرض کا علاج سمجھتے ہیں۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اونچی دُکانوں پر پھیکا پکوا ن فروخت ہوتا ہے۔ کوئی بھی ہوشیارگاہک اس اونچی دُکان کے بورڈ یا بینر یا اشتہارات پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اُسے دیکھ کر ہی آگے بڑھ جاتا ہے تو پھر آپ سیاسی زندگی اورقومی زندگی میں ان اشتہارات کواپنے ساتھ لے کرچلنے کے عادی کیوں ہوگئے ہیں؟
خان صاحب! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اونچی دُکانوں پر پھیکا پکوا ن فروخت ہوتا ہے۔ کوئی بھی ہوشیارگاہک اس اونچی دُکان کے بورڈ یا بینر یا اشتہارات پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اُسے دیکھ کر ہی آگے بڑھ جاتا ہے تو پھر آپ سیاسی زندگی اورقومی زندگی میں ان اشتہارات کواپنے ساتھ لے کرچلنے کے عادی کیوں ہوگئے ہیں؟

خان صاحب، یاد رکھئے! ڈاکٹر ہونا اور بات ہے اور ڈاکٹر بن جانا اور بات ہے۔ اسی طرح ذمے دار ہونا اور چیز ہے مگر ذمے دار بن جانا یا کہلانا بالکل دوسری چیز ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اونچی دُکانوں پر پھیکا پکوا ن فروخت ہوتا ہے۔ کوئی بھی ہوشیارگاہک اس اونچی دُکان کے بورڈ یا بینر یا اشتہارات پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اُسے دیکھ کر ہی آگے بڑھ جاتا ہے تو پھر آپ سیاسی زندگی اورقومی زندگی میں ان اشتہارات کواپنے ساتھ لے کرچلنے کے عادی کیوں ہوگئے ہیں؟ یہ اتنا بڑا سوال ہے جس کا جواب عوام کو نہیں بلکہ بحیثیت چیئرمین پاکستان تحریک انصاف آپ کو تلاش کرنا چاہیے۔ کیوں کہ آپ کھوکھلی شہرت، تعلقات اوراونچی دُکان سے سامان خریدنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
خان صاحب، اپنے دماغ کی ڈائری میں بات نوٹ کرلیجیے کہ ایسا کرکے آپ مرض پر مرض بڑھاتے ہی جا رہے ہیں۔ اس کی سنگینی میں اضافہ کر رہے ہیں اور اُسے مزیدپیچیدہ تر بنا رہے ہیں۔ اس لیے میں ببانگ دہل یہ کہہ سکتا ہوں کہ خیبر پختونخوا کے عوامی مسائل میں اضافہ آپ کی حکومت میں ذمے دار بن جانے والوں نے کیا ہے، شوکت علی یوسفزئی جیسے حقیقی ذمے داروں نے نہیں۔ میں اس اُمید پر اپنی بات ختم کر رہا ہوں کہ شوکت علی یوسفزئی جیسے ذمہ دار کارکن کے ساتھ وہ سیاسی زیادتی ایک بار پھر نہیں ہوگی جس کا اعتراف خود وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے ایک جلسہ عام کیا تھا۔