سردارِ دو عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ دنیا کی قومیں تم پر ایسی ٹو ٹ پڑیں گی، جس طرح لوگ دستر خواں پر کھانے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ کیا ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ اس وجہ سے لوگ ہم پر ٹوٹ پڑیں گے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا، نہیں بلکہ تمہاری تعداد اس وقت بہت زیادہ ہوگی۔ صحابہ نے عرض کیا کہ پھر کیا وجہ ہوگی؟ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں وہن کی بیماری پیدا ہوجائے گی۔ صحابہؓ نے سوال کیا کہ وہن کیا چیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ زندگی سے پیار اور موت سے خوف۔
حقیقت میں ایسا ہی ہے کہ مسلمانوں میں وہن کی بیماری پیدا ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے دنیا کی اقوام ان کو مٹانے، ختم کرنے اور نیست و نابود کرنے کے لیے ان پر ٹوٹ پڑی ہیں۔ کبھی ایسا وقت بھی تھاکہ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں رومیوں کے خلاف پے درپے فتوحات سے قیصرِ روم اتنا پریشان ہوا کہ اس نے اپنے سپہ سالار کو دربار میں طلب کیا اور اس سے پوچھا کہ ہماری فوج تعداد، اسلحے اور ہر لحاظ سے مسلمانوں کے مقابلے میں بہترین ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے ہاتھوں پے در پے شکستیں ہو رہی ہیں؟ سپہ سالار نے عرض کیا کہ حضور اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان موت سے اتنی محبت کرتے ہیں جتنی محبت ہم زندگی سے کرتے ہیں۔ وہ مرنے یعنی شہادت کے حصول کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔ اس وجہ سے ہماری فوج ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
لیکن جب دنیا سے محبت اور موت سے کراہت مسلمانوں کے دلوں میں سرایت کر گئی، تو سلطنت بغداد کو وحشی تاتاریوں نے روند ڈالا۔ ہزاروں مسلمان مرد، عورتوں اور بچوں کو تہہ و تیغ کیا۔ پورا شہر جلا ڈالا اور کئی دن تک دریائے دجلہ مسلمانوں کے خون سے رنگین بہتا رہا۔
اسی طرح سپین پر آٹھ صدیاں حکومت کرنے کے دوران میں جب ایمان کمزور ہوا، وہن کی بیماری پیدا ہوگئی، نام نہاد مسلمانوں کی جنگِ اقتدار، سازشوں اور دشمنوں کے ساتھ ساز باز کے نتیجے میں مسلمان سپین سے نکالے گئے اور پھر مسلمانوں کے اوپر عیسائی درندوں نے جو ہولناک اور شرمناک مظالم کیے، اس داستانِ خونچکاں کو پڑھنا بھی مشکل ہے۔ جنگِ عظیم دوم سے پہلے پوری مسلم امہ مختلف غالب قوموں کی غلامی میں گرفتار ہوچکی تھی۔ اس دوران میں صرف ترکی اور افغانستان آزاد رہ گئے تھے۔ افضانستان کو انگریزوں نے روس کے ساتھ ’’بفر سٹیٹ‘‘ رکھنے کی وجہ سے آزاد چھوڑ دیا اور ترکی اپنی طاقت، وسیع رقبے اور وسائل کی وجہ سے آزاد رہا، لیکن جنگِ عظیم دوم جرمنی، جاپان اور ترکی کی شکست کے نتیجے میں فاتح قوتوں نے ترکی خلافت کو ختم کرکے اس کے حصے بخرے کرکے مختلف قومیتوں میں تقسیم کیا۔ اس کے لیے ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ ایک جاسوس کے ذریعے سازشوں کے جال پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلادیے اور عربی افریقی قومیت کے فتنے کھڑے کرکے مشرقِ وسطیٰ کو کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں اور ریاستوں میں تقسیم کیا۔ درمیان میں یہودی فتنے اسرائیل کو خنجر کی طرح گاڑ دیا، جس نے آج تک عرب شیوخ اور نام نہاد مسلمان حکمرانوں کو بے بس اور مجبور و مقہور کرکے رکھ دیا ہے۔ تاریخ کے اس پورے دورانیے میں مسلم امہ ہر مقام اور ہر خطۂ زمین میں غیر مسلم طاقتوں کے ظلم و ستم ، بالادستی اور سازشوں کا شکار رہی ۔
زارِ روس اور اس کے بعد کمیونزم اور سوشلزم کے علمبرداروں نے بھی وسطی ایشیا کے مسلم ممالک کو بزورِ طاقت قبضہ کیا اور ان پر اتنے مظالم ڈھائے کہ ان کے دین و مذہب، اقدار و روایات اور نام تک بدل ڈالے۔ تمام اسلامی آثار و علامات کو نیست و نابود کر دیا۔ چین نے سنکیانگ کے مسلم ترکی علاقے پر قبضہ کرکے مسلمانوں سے ان کی دینی و مذہبی شناخت ختم کرنے کے اقدامات اس وقت بھی جاری ہیں۔ ترکستانی مسلمان چائینہ مظالم سے نجات کے لیے دنیا بھر کو دہائی دے رہے ہیں۔ افغانستان پر روسی قبضے کے خلاف جب افغان ملت نے جہادی مزاحمت شروع کی، تو روس کے مقابلے میں دوسری سپر پاؤر امریکہ کے لیے اپنے مقابل قوت کو ختم کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا۔ اس نے اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا کر روس کو افغانوں کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، لیکن اس دوران میں امریکہ جیسی سپر طاقت کو افغانیوں کے جذبۂ جہاد کے مشاہدے کا جو موقع ملا، تو اس نے اس جذبہ کو اپنے لیے واضح خطرہ محسوس کیا اور جب صدر نکسن سے پوچھا گیا کہ مقابل سپر طاقت تو ختم ہوگئی، اب تو کوئی مقابل ہی نہ رہا، تو جنگ کس کے خلاف ہے؟ نکسن نے جواباً کہا کہ ’’اسلام تو باقی ہے۔ اب مسلمان اور اسلام کے خلاف جنگ لڑی جائے گی۔‘‘
تو پھر اس کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔ الزامات وضع کیے گئے۔ دہشت گرد، انتہا پسند، سیاسی اسلام وغیرہ وغیرہ کے نعرے ایجاد کیے گئے۔ عراق کو ایران سے لڑایا گیا۔ عربی اور عجمی کا فتنہ کھڑا کیا گیا۔ شیعہ اور سنی کا مسئلہ سامنے لایا گیا۔ پھر عراق کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے جھوٹے پرو پیگنڈے پر تمام ممالک کو اکھٹا کرکے اقوام متحدہ کے ذریعے حملہ کیا گیا اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا کر دکھ دی گئی۔ نائن الیون کا ڈراما تشکیل دیا گیا۔ ہوائی جہازوں کے اغوا اور ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا کر ٹاؤرز کو گرایا گیا اور القاعدہ جیسی نا معلوم اور مجہول تنظیم کے ذریعے مسلمانوں کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ اگرچہ جہازوں کے اغوا اور ٹریڈ سنٹر سے ٹکرانے کے ملزموں میں سارے نام عربی تھے اور افغانیوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ نہ اس میں کوئی افغانی شہری شامل تھا، لیکن حملہ افغانستان پر کیا گیا اور امریکہ کے ساتھ اس کی اتحادی قوتوں نے افغانستان اور افغان عوام کو خون کے سمندر میں ڈبو دیا۔ اتنے بم برسائے گئے کہ پہاڑ تک ریزہ ریزہ ہوگئے۔ شادی کی باراتوں اور میتوں کے جنازوں پر بم برسائے گئے اور ان قاتل، سفاک اور دشمنِ انسانیت غیر مسلم طاقتوں نے مسلمانوں کو صرف مسلم ہونے کے جرم میں مظالم کا شکار بنایا۔ آج جب امریکہ اور اتحادی طاقتیں پوری سفاکیت کے باوجود افغانیوں کے جذبۂ جہاد سے جانی و مالی نقصانات اٹھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہورہی ہیں، تو پاکستان پر دباؤ ڈال کر مجبور کیا جا رہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کراکے ہمیں باعزت واپسی کا رستہ دیا جائے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو اکہ اگر ملت کے اندر جذبۂ جہاد اپنے دین پر عمل پیرا ہونے کے نتیجے میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوا، تو بدر کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
…………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔