جمہوری ملکوں میں انتخابات آئین میں دیے گئے طریقۂ کار، قانون اور قواعد و ضوابط کے تحت تواتر کے ساتھ کرائے جاتے ہیں۔ انتخابی عمل کے نتیجے میں ہارنے والے، جیتنے والوں کے حقِ حکمرانی کو فراخ دلی سے قبول کرتے ہوئے انھیں مبارک باد دیتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں یہ یقین ہوتا ہے کہ انتخابی عمل میں عوام ان کے خلاف ووٹ استعمال کر سکتے ہیں، لیکن وہ اپنے جمہوری کردار سے کنارہ کش نہیں ہوتے، بلکہ اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاسی پارٹیوں کے رہنما جمہوریت بچانے کا شور مچا کر جمہوریت کو "ڈی ریل” کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ پاکستان میں ہونے والے کسی بھی انتخابی عمل کے نتائج کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہارنے والے اور جیتنے والے دونوں انتخابی نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہیں۔ ہر بار انتخابات کو ھاندلی زدہ قرار دینے کے باوجود حکمران اور حزبِ مخالف نے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی۔ کیوں کہ دونوں کو انتخابی عمل کو شفاف بنانے میں کوئی فائدہ نہیں۔ انتخابی عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو روزِ اول سے گرانا حزبِ مخالف پارٹیاں اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز سرکاری عہدیدار بھی کسی ایک سیاسی پارٹی کو اقتدار دلانے اور دوسری پارٹی کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اقتدار کی اس رسّہ کشی میں طالع آزماؤں کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اقتدار کی تمنا رکھنے والوں نے تب بھی سبق نہیں سیکھا۔ صرف اور صرف اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے آمر کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں۔

25 جولائی 2018ء کو پاکستان میں ہونے والے قومی انتخابات کے نتائج کو حزبِ مخالف نے سچے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر اور ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمان نے شکست کھانے کے بعد تحریکِ انصاف کے خلاف تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ مولانا فضل الرحمان نے اسمبلی ممبران کے حلف اُٹھانے سے پہلے اے پی سی کا اجلاس طلب کیا۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف کے کامیاب ہونے والے ارکانِ اسمبلی رکنیت کا حلف نہیں اُٹھائیں گے اور حکومتی ارکان کو بھی روکا جائے گا، لیکن مولانا فضل الرحمان کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر شہاز شریف نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے اور ہم الیکشن کمیشن سے دوبارہ شفاف انتخابات کرانے مطالبہ کرتے ہیں، جب کہ ارکان کا حلف نہ لینے کے سلسلے میں وہ اپنے پارٹی عہدیداروں اور ورکروں سے مشورے کے بعد مولانا فضل الرحمان کو اپنے فیصلے آگاہ کریں گے۔

اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے اے پی سی میں شرکت نہ کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کو حلف اُٹھانے پر راضی کیا۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے ایم ایم اے کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی، لیکن اقتدار کے ہوس نے مولانا کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔ وہ اب تک اس کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کس طرح سابق صدر آصف علی رداری اور سابق وزیر اعظم محمد میاں نواز شریف کو حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر راضی کرتے ہیں۔

حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت مزید نہیں چل سکتی اور حکومت کچھ عرصہ میں گرنے والی ہے۔ کیوں کہ تحریک انصاف کے ساتھ کوئی پروگرام ہے اور نہ حکومت چلانے کے لیے اہل ٹیم۔ بعض اخبارات میں تو پی پی پی، مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے درمیان حصہ داری کا فارمولہ بھی طے ہوگیا ہے کہ کس کو کتنی وزارتیں ملیں گی؟ جماعتِ اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق نے اس گنگا میں ثواب کی خاطر اشنان فرماتے ہوئے بیان دیا ہے، جو رزنامہ آج میں 20 جنوری کو شائع ہوا ہے۔ بیان کچھ یوں ہے: "صابن پر کھڑی حکومت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ قبل از وقت انتخابات کی بات اپوزیشن نے نہیں خود وزیر اعظم نے کی۔” تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی پوزیشن یوں کمزور ہوئی کہ رہنماؤں کا احتساب اور 18ویں آئینی ترمیم میں مزید ترمیم کی غلطی نے اپوزیشن کو یکجا کرنے پر مجبور کیا اور اب حکومت کو گرانے کی کوشش کی جائے گی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پی ٹی آئی کی حرکتوں نے اسٹبلیشمنٹ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ "ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے پی ٹی آئی کی حمایت کی تھی اور یہ غلط تھا۔” اسٹبلیشمنٹ کو شک ہے کہ تحریکِ انصاف کی احتساب پالیسی کا مقصد اقتصادی بحران سے توجہ ہٹانے کے سوا کچھ نہیں اور اب وہ کسی حد تک پیچھے ہٹ چکی ہے۔ اب بظاہر اسٹبلیشمنٹ، حکومت کی حمایت کرتی نظر آ رہی ہے اور نہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو تنگ ہی کر رہی ہے۔ یہ کہ جس طرح اسٹبلیشمنٹ نے پی ٹی آئی کے ساتھ آزاد ارکان ملاکر حکومت کی تشکیل میں مدد کی تھی، تو اسی طرح پی ٹی آئی حکومت کر گرانے میں کردار ادا کرنے کو بھی تیار بیٹھی ہے۔ یوں عدلیہ بھی دونوں کے ساتھ نرمی برت رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے "ایون فیلڈ اپارٹمنٹس” کے مقدمہ میں نیب کی نواز اور مریم نواز کی ضمانت کی منسوخ کی درخواست خارج کی۔

تو کیا ان حالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واقعی حکومت گرنے والی ہے؟ میرے خیال میں اپوزیشن کو حکومت گرانے سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ایسی کوئی حرکت ہی ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ حکومت سے مطمئن ہے بلکہ اپوزیشن جماعتیں حالات کا ادراک رکھتی ہیں، کہ حکومتی عہدیداروں کے کرتوت ہی حکومت کو لے ڈوبے گی۔ حکومت کو زیادہ مسئلہ اپنے اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے سے ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) حکومت سے ناراض ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے ان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ اب وہ غیر علانیہ اپوزیشن کے ساتھ شامل ہو چکی ہے۔ پارٹی سربراہ مینگل، اپوزیشن کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ "بلوچستان عوامی پارٹی” بھی مطالبات پورے نہ ہونے پر ناراض ہے۔ ایم کیو ایم کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ وہ اپنے ان دفاتر کو کھلوانا چاہتی ہے جو رینجرز نے اس بنیاد پر بند کیے تھے کہ یہ سرکاری اراضی پر قبضہ کرکے بنائے گئے تھے اور یہ سیاسی دفتر سے زیادہ جرائم پیشہ افراد کے مراکز بنے تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگ قاف نے بھی تحفظات کا اعلان کیا ہے بلکہ پارٹی کے اجلاس میں تو حکومت میں رہنے یا نہ رہنے پر بھی غور کیا گیا، اور فیصلے کا اختیار چوہدری شجاعت کو دے دیا گیا ۔ مسلم لیگ قاف کے ایک وزیر نے اسی وجہ سے استعفا بھی دیا۔

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔