پی ٹی آئی کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں

کچھ دن پہلے سابق صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری نے پارلیمان میں جب یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہمیں اس حکومت کو گرانے کی ضرورت ہے، نہ ہم ایسا کچھ کریں گے بلکہ اس حکومت کو گرانے کے لیے تو یہ خود ہی کافی ہے، تو اسے دیوانے کی بڑ قوم نے بھی سمجھا اور راقم الحروف نے بھی ۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جس سیاسی جماعت کو حکومت اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد ملی ہو، وہ اپنی دشمن آپ بن جائے۔ قوم سمجھی کہ شاید زرداری صاحب اپنے خلاف جاری کیس اور سندھ میں حائل مشکلات کی وجہ سے ایسا کہنے پہ مجبور ہوئے، لیکن اب جیسے جیسے حالات واضح ہوتے جا رہے ہیں، کوئی شک نہیں کہ اس حکومت کو صرف ایک ہی طاقت گرا سکتی ہے اور وہ یقینی طور پر یہ حکومت خود ہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے دل و دماغ میں نئے پاکستان کے پرانے چہرے یا پرانے پاکستان کے پرانے ہی چہرے کے نام لیوا یہ تاثر مضبوط سے مضبوط تر کرتے جا رہے ہیں۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ حکومت میں موجود پرانے سیاسی کھلاڑی تمام معاملات میں یکسر لاتعلق نظر آتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ عوام کو دکھانا چاہتے ہیں کہ آپ ہی تھے جو تبدیلی لانا چاہتے تھے، یہ لیجیے تبدیلی حاضر ہے۔
ساہیوال سانحہ ہے، حادثہ ہے، کامیاب کارروائی ہے یا ظلم، ہماری کیا اوقات کہ ہم اس پہ کچھ کہہ بھی سکیں۔ اس معاملے میں حکومتی وزرا ہی کافی ہیں۔ اور حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفرِ موج ہی کافی ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات کے بیانات ہوں یا نئے نئے انصافی بننے والے صوبائی وزیر قانون جناب محترم محمد بشارت راجہ صاحب، یہ تو صرف اور صرف یہ تاثر دینے میں لگے ہوئے ہیں کہ یہ واقعہ بس اس لیے زیادہ محسوس ہورہا ہے کہ سوشل میڈیا کی زینت بن گیا ہے۔ اور سونے پہ سہاگا پھولوں کا گلدستہ ہم ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے ہم نے ان بچوں کو ان کے ہی سگے ماں باپ کا بہیمانہ قتل کر کے بازیاب کروایا اور اور اب سر پہ ہاتھ رکھ کے کہہ رہے ہوں: ’’یہ لو بیٹا،آپ کے ماں باپ کو آپ کی بہن کے ساتھ ہم نے گولیوں سے بھون ڈالا ہے، مگر آپ فکر نہ کرنا آپ کے سر پہ حکومت وقت ہاتھ رکھ چکی ہے۔‘‘ عقل کے اندھے لوگوں کو نہ جانے بیانات دینے، پریس کانفرنسز کرنے کی جلدی کیا ہوتی ہے؟ جب جے آئی ٹی بن چکی تھی، تو کس بد مست مشیر نے مشورہ دیا کہ آپ میڈیا میں آ کے مزید لوگوں کے زخموں پہ نمک چھڑکیے۔ آپ تو اب تک ایک شخص کو دہشت گرد ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھی تک مار ڈالنے کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں۔ آپ سے کوئی سوال پوچھنے کی جرأت کرے تو وہ بھی برا ہی لگے گا، کہ دہشت گرد بھی اگر تھا گاڑی میں کوئی، تو آپ کو ایک لمحہ دینی، معاشرتی، اخلاقی کسی حد نے نہیں روکا کہ اسی گاڑی میں ایک خاتون بھی ہے، اس کے ساتھ چار نونہال بھی ہیں۔ تین نونہالوں کے بچ جانے کی زندگی کے کسی موقع پر ان کے خاندان کو خوشی ہوگی لیکن حقیقتاً ان کو بچنا نہیں چاہیے تھا کہ وہ خواب میں بھی کبھی اپنے ماں باپ کو پکاریں گے، تو انہیں گولیوں کی تڑتڑاہٹ رات کے سناٹے میں ڈرائے گی۔ ’’مار دو‘‘، ’’چھوڑنا نہیں‘‘، ’’جانے نہ پائیں‘‘ جیسے جملے اِن کے کانوں میں بم کی طرح گونجیں گے۔ حاکم وقت کہتے ہیں: ’’ہمیں کچھ وقت دیجیے‘‘، تو عرض اتنی سی ہے کہ آپ کے لیے پانچ ماہ نہیں پانچ سال بھی کم ہیں۔ آپ کا دماغ تو روزِ اول سے ہی اس انتہا پہ پہنچ چکا ہے کہ ’’تبدیلی‘‘ خود شرمندہ ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیسے لوگ ہم پہ مسلط ہیں کہ جو بے دردی سے مارے گئے افراد کو ابھی تک مظلوم نہیں مان رہے۔ ہزار اختلافات کے باوجود سلام ہے تم کو اے چوہدری نثار! کہ تم نے اسلام آباد میں ایک سکندر پہ صرف اس لیے گولی نہ چلانے دی کہ اس کے ساتھ بچے ہیں۔ سلام ہے تم پہ کہ تم نے وفاقی دارالحکومت جیسے اہم شہر میں میڈیا کے تندو تیز سوالات سہ لیے مگر ہمت نہ ہاری۔ کیوں کہ جس طرح انسانوں کو بے دردی سے مارا گیا ہے، اس پہ اگر ان افراد میں سے کوئی قصور وار تھا، تو بھی اس کا قصور کم و بیش بے معنی ہو گیا ہے اور حقیقتاً وہ اکثر پڑھتے کہ ’’پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی‘‘ تو کہنا پڑے گا کہ یہ مدد سانسوں سے رہائی کے لیے ہی کی جا رہی ہے۔ ملک کا صدر مرنے والوں کو شہید کہہ رہا ہے اور صوبائی وزرا ایسے تاک تاک کے نشانے لگا رہے ہیں کہ دنیا سے جانے والوں کے عزیز و اقارب کا غصہ مزید بڑھ رہا ہے۔ حد ہے کہ ایک تو مار دیا جائے اور رونے پہ کہا جائے ’’قصور بھی تو تمہارا ہی تھا کہ گولیوں کے سامنے آئے ہی کیوں؟‘‘
دو کروڑ روپے کا اعلان، وزیرِ قانون کی ہنگامی پریس کانفرنس، صوبائی وزیرِ اطلاعات کی لفاظی، صدرِ مملکت کا افسوس، وزیرِ اعظم کا رنج کا اظہار، سیاست دانوں کے تعزیتی بیانات، پولیس کی وضاحتیں، جے آئی ٹی کی یقین دہانیاں، اپوزیشن کا احتجاج، مفت علاج و تعلیم کے وعدے یہ سب آپ ایک طرف رکھ دیجیے اور تین بچ جانے والے بچوں کو ان کے والدین واپس کر دیجیے، ان کے دماغ سے برستی گولیوں کا ڈر ختم کر دیجیے، ان کے خوفزدہ چہروں سے موت کی زردی مٹا ڈالیے۔ اور اگر ایسا کرنا آپ کے بس میں نہیں، تو اس جیسے بچے جب جوانی کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے معاشرے کے باغی بن جاتے ہیں، تو پھر اس لمحہ ان باغی بچوں پہ لعن طعن کرنا بھی چھوڑ دیجیے۔ کیوں کہ ان کو باغی بھی ہم خود بناتے ہیں، تو پھر گلہ کیسا؟

………………………………………………………….