شیر شاہ سوری (آخری حصہ)

پختون اتل، شیر شاہ سوری

شیر شاہ سوری کی موت کے بعد اس کے بیٹے اپنے والد سے ملنے والی حکمرانی کو قائم رکھنے میں ناکام رہے۔ صفیہ حلیم اس حوالہ سے کہتی ہیں: ’’شیر شاہ سوری کے دس بیٹے تھے۔ ان میں عادل خان بڑا بااخلاق تھا، لیکن اس میں قوتِ فیصلہ کی کمی تھی۔ دوسرا جلال خان تھا جو کہ بڑا تیز و طرار تھا۔ وہ اچھا فوجی اور منتظم تھا لیکن اس کے ساتھ وہ خود سر اور کینہ پرور بھی تھا۔ جو بھی اس کی مخالفت کرتا، وہ اس پر برس پڑتا۔ لوگ اس سے دبتے تھے۔ دونوں بھائیوں میں اپنے والد جیسی صلاحیتیں (یعنی جلد فیصلہ کرنا اور ساتھ جنگی مہارت رکھنا) مفقود تھیں۔ یہ ان دونوں کی کمزوری تھی۔ آخرِکار جلال خان، والد کے تخت پر بیٹھ گیا۔ جب دس بیٹوں میں دو ایسے ہوں اور انتظام سے بھی واقف نہ ہوں، تو وہ سلطنت بچ نہیں پاتی۔ اُس وقت بھی مخالفت موجود تھی۔‘‘

پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک نے بھی شیر شاہ سوری کو اپنے اشعار میں یاد کیا ہے
پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک نے بھی شیر شاہ سوری کو اپنے اشعار میں یاد کیا ہے

پختو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک نے شیر شاہ سوری اور بہلول لودھی کو اپنے اشعار میں کچھ یوں یاد کیا ہے:
د شیر شاہ او بہلول خبری اورم
چی پہ ہند کی پختانہ وو پاچاہان
شپگ او اووہ پیڑئی ئی داسی پاچاہی وہ
چی پہ دوی پوری درست خلک وو حیران
کہ توفیق د اتفاق پختانہ مومی
زوڑ خوشحال بہ دوبارہ شی پہ دا زوان
ترقی اور خوشحالی کے لئے مشہور پختون اتل شیر شاہ سوری ایک خیمے میں جنگ کے دوران میں قتل کر دئیے گئے۔ اور صفیہ حلیم ان کی موت کے حوالے سے کہتی ہیں: ’’شیر شاہ سوری ہندوستان کے علاقہ کلنجر میں وفات پائے ہیں۔ کلنجر کے قلعہ میں گونڈیلا (قبیلہ) لوگ بستے تھے۔ گونڈیلا ہندوستان کے پرانے لوگ ہیں۔ انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا اور بڑے دلیر لوگ ہیں۔ کلنجر قلعہ بہت بڑا اور وسیع تھا۔ سات مہینے تک اسے محاصرہ میں رکھا گیا۔ اہلِ قلعہ سے کہا گیا کہ آپ لوگ صلح کرلیں، آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا، لیکن انہیں اس بات کا اعتبار نہیں تھا۔ قلعہ کی دیواریں آسمان کو چھو رہی تھیں۔ کسی نہ کسی طرح قلعہ کے اندر آگ کے گولے پھینکنے کی خاطر بمباری جاری تھی۔ شیر شاہ سوری کی فوج نے دیواروں کی بلندی کو دیکھتے ہوئے لکڑی کے پایے بنا دئیے اور ان کو قلعہ کے باہر ایک فاصلہ پر کھڑا کر دیا۔ فوجی ان پایوں پر چڑھ گئے اور بارودی گولے جنہیں دستی بم بھی کہا جاسکتا ہے، قلعہ کے اندر پھینک دئیے۔ مذکورہ بموں کو قلعہ کی دیوار کے ساتھ ذخیرہ کیا گیا تھا۔ شیر شاہ سوری بموں کے اس ذخیرہ کے ساتھ ایک پایہ پر کھڑے تھے۔ یہ پایہ بھی لکڑی ہی کا بنا تھا۔ اسی اثنا میں پایے کو آگ لگ گئی، بارودی گولے جنہیں آس پاس ذخیرہ کیا گیا تھا، ایک ایک کرکے پھٹنے لگے۔ نتیجتاً شیرشاہ سوری کا وجود بری طرح جھلس گیا اور وہ نیچے گر پڑے۔ اس کے بعد بھی وہ ہوش میں تھے۔ اس وقت بھی انہوں نے اپنے جرنیل کو کہا کہ میدان گرم رکھا جائے۔ تین دن تک شیر شاہ سوری زندہ رہے۔ یہاں تک کہ کلنجر کا قلعہ فتح کیا گیا اور انہیں خوشخبری سنائی گئی۔ اس کے ساتھ شیر شاہ سوری کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔‘‘

ہندوستان میں شیر شاہ سوری کی خدمات کے اعتراف میں ایسے کئی ٹکٹ وقتاً فوقتاً جاری کئے گئے
ہندوستان میں شیر شاہ سوری کی خدمات کے اعتراف میں ایسے کئی ٹکٹ وقتاً فوقتاً جاری کئے گئے

کہا جاتا ہے کہ جوانی میں شیر شاہ سوری سوتیلی ماں کی وجہ سے اپنے والد سے ناراض ہوکر گھر کو خیر باد کہہ گئے۔ انہوں نے غریب الوطنی میں بھی سیکھنے کا عمل جاری رکھا۔ نہ صرف یہ کہ اس وقت کے رائج علوم کا مطالعہ کیا بلکہ علم و فلسفہ کو بھی سیکھا۔اس حوالہ سے صفیہ حلیم کہتی ہیں: ’’جب وہ گھر سے ناراض ہوئے، تو بہار سے جونپور سدھار گئے۔ جونپور اس وقت دینی و دنیوی علوم کا مرکز تھا۔ کچھ عرصہ وہاں رہ کر شیر شاہ سوری نے دینی علم حاصل کیا اور فقہ کے حوالہ سے جان گئے۔ شیر شاہ سوری کے اس عمل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا کتب اور علم کے ساتھ کس حد تک لگاؤ تھا۔ اس دوران میں انہوں نے خوب علم حاصل کیا۔ صرف و نحو کا مطالعہ کیا۔ ان کے ایک استاد قاضی شہاب الدین تھے، جن کے تبصرے آپ (شیر شاہ سوری) نے پڑھ لئے۔ یہ آپ کے تصوف سیکھنے کا دور تھا، جس نے آپ کی شخصیت پر اثرات ڈالے۔ والئی جونپور کے ساتھ آپ کے تعلقات کافی خوشگوار تھے۔ یوں آپ کے علم کا چرچہ آپ کے والد حسن خان تک پہنچ گیا۔ لوگ ان کے والد بزرگوار کو طعنے دیتے کہ اتنے قابل اور ہونہار نوجوان کو کیوں اپنی ذات سے دور رکھا ہے؟ آپ کی قابلیت روزِ روشن کی طرح عیاں تھی۔ لوگ کہتے کہ غور کے خاندان میں ایسا جوہر قابل پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا ہوگا۔ اس وجہ سے لوگوں نے حسن خان کو مشورہ دیا کہ انہیں واپس بلا لیا جائے اور قبیلے کا انتظام فرید خان یعنی شیر شاہ خان کے حوالے کیا جائے۔ یہ اس لئے کہ حسن خان کے تمام بیٹوں میں شیر شاہ خان سب سے زیادہ ہوشیار اور دلاور تھے۔ آپ کو سیسرام بلوایا گیا جہاں آپ نے زمینوں کا انتظام و انصرام سنبھالا۔‘‘
تھوڑا عرصہ بعد ایک بار پھر شیر شاہ سوری کے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مسائل پیدا ہوئے اور وہ ایک بار پھر گھر بار چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ ابھی جوان تھے کہ ریاستِ بہار کے حکمران ٹھہرے۔ لکھاری صفیہ حلیم اس حوالہ سے کہتی ہیں: ’’دو سال بعد شیر شاہ سوری کے والد حسن خان نے انہیں فوجی ملازمت سے برخاست کرکے سیسرام بھگا دیا۔ تاریخی اس حوالے سے خاموش ہے کہ انہیں کیوں فوجی ملازمت سے برخاست کرکے سیسرام بھگایا گیا؟ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ حسن خان کی اور بیویاں بھی تھیں، جو شیر شاہ سوری کے خلاف حسن خان کے کان بھرا کرتی تھیں۔ پھر بھی اس بات کا کسی کو کچھ پتا نہیں کہ وہ کیوں علاقہ چھوڑ گئے، والد بزرگوار نے انہیں کیوں بھگایا اور وہ کانپور کیوں گئے؟ کانپور میں شیر شاہ سوری کچھ عرصہ رہے۔ یہ وہ سال تھے جب بابر بادشاہ کابل سے نکل آئے تھے اور آہستہ آہستہ ہندوستان کی طرف زور لگا رہے تھے کہ اس پر اپنا قبضہ جما سکیں۔ لودھیوں کی حکومت ان دنوں کمزور پڑ رہی تھی۔ ابراہیم لودھی اس وقت ہندوستان کے بادشاہ تھے اور ریاستیں الگ ہو رہی تھیں۔ اس وقت بہار کے علاقہ میں شیر شاہ سوری نے اپنے قدم جما لئے۔‘‘
(نوٹ:۔ یہ تحریر مشال ریڈیو کی شائع کردہ کتاب ’’اتلان‘‘ کے مضمون ’’شیر شاہ سوری‘‘ کا ترجمہ ہے، جس میں جہانزیب کالج کے پختو سانگہ کے پروفیسر عطاء الرحمان عطاءؔ اور عطاء اللہ جان ایڈووکیٹ نے مترجم کی معاونت فرمائی۔)