بچوں سے جنسی زیادتی بارے چشم کشا رپورٹ

وفاقی محتسب طاہر شہباز نے گذشتہ ہفتے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے بچوں سے زیادتی کے واقعات کی جو تفصیل پیش کی ہے، وہ لرزہ خیز ہی نہیں بلکہ اسلامی فلاحی ریاست کے باسیوں کے لیے باعث شرم بھی ہے۔ وفاقی محتسب نے ضلع قصور میں رونما واقعات کے حوالے سے خصوصاً فرمایا کہ ’’ان گھناونی واقعات میں ملوث زیادہ تر مجرم پڑھے لکھے اور سیاسی اثروروسوخ رکھنے والے ہیں، جب کہ زیادتی کا نشانہ بننے والے غریب اور غیر تعلیم یافتہ پس منظر رکھنے والے ہیں‘۔‘
طاہرشہباز صاحب کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے ایک موبایل ایپلی کیشن تیار کرنے کا عمل جاری ہے،جسے مارچ میں فعال کرنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔ اس کی مدد سے ان بہیمانہ واردات میں کمی آسکتی ہے ۔اس طرح کے ایپس مغربی دنیا میں کب سے رایج ہیں، مگر پاکستان میں اس کا مطالبہ قصور کی زینب نامی بچی کے ساتھ ہونی والی زیادتی کے بعد سامنے آیا تھا۔
زینب کا مجرم عمران جوپکڑا گیا تھا، کو لاہور کی جیل میں گذشتہ برس اکتوبرمیں پھانسی دی گئی تھی، مگر کاش! زینب کی والد کی درخواست کومنظور کیا جاتا اور عمران کو سرِ عام پھانسی دی جاتی، تو دوسرے شیطان صفت لوگ عبرت پکڑتے۔ افسوس، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ کیوں کہ ہمارے موجودہ قوانین اٹھارہ سو اور انیس سو کے زمانے کے ہیں، جن میں یہ گنجائش ہی نہیں اور نہ یہ قوانین عصری تقاضوں کے مطابق ہی ہیں۔ سو مجرم کو پھانسی ضرور ہوئی لیکن ماسوائے زینب کے والد اور عمران کے چند رشتہ دار جو پھانسی کے وقت موجود تھے، باقی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد مانسہرہ اور نوشہرہ میں بھی معصوم کلیوں کو بے دردی سے مسلا گیا۔ جنسی زیادتی کے بعد قتل کی گئیں ان نوخیز کلیوں کے قاتل ہنوز آزاد اور نامعلوم ہیں۔ اس لیے یہ مطالبہ پُراثر اور بروقت قراردیا جا رہا ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل میں ملوث ملزموں کا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتواں میں ترجیحی بنیادوں پر چلایا جائے اور مجرم ثابت ہونے والوں کو شہر کے بیچ واقع مشہور چوک پر سرِعام لٹکایا جائے۔ جیسا کہ سعودی عرب میں کیا جاتا ہے، تاکہ باقی لوگ عبرت بھی پکڑ سکیں اور حقیقی انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے ۔
وفاقی محتسب نے اس حوالے سے صدر مملکت کو اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ بھی پیش کی ہے اورکئی دیگر ہوش رُبا انکشافات بھی کیے ہیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل تنظیم ’’ساحل‘‘ کے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018ء کی پہلی ششماہی میں پاکستان بھر میں 2322 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے۔ اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں روزانہ بارہ بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔
ساحل تنظیم کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق 2017ء کے مقابلے میں 2018ء کی پہلے ششماہی میں زیادتی کی شرح میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔
قارئین، وفاقی محتسب کے انکشافات ہوں یا ساحل تنظیم کے اعداد و شمار ہر دو ضمیرِ انسانی کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں، مگر کاش اس سماج میں زندہ ضمیر والے بھی ہوتے۔ میڈیا جو ایک طرف اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے، تو دوسری طرف ’’فیک اکاؤنٹس کیس‘‘ جیسے سنسنی خیز موضوع میں اتنا مصروف ہوچکا ہے کہ کسی اینکر کے پاس وقت ہی نہیں کہ وفاقی محتسب کے انکشافات یا ساحل تنظیم کے اعداد و شمار پر پروگرام کرکے عوام کو آگاہ کرے۔ ساتھ ساتھ والدین کو بھی ہدایات دے کہ کس طرح اپنے بچوں کو نظر کے سامنے رکھ کراس بہیمانہ تشدد سے بچایا جاسکتاہے۔ عرصۂ دراز سے یہ رواج بھی چل رہا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں اوربچیوں کو ’’ٹیوٹر‘‘ یا ’’قاری‘‘ کے پاس ٹیوشن یا قاعدہ پڑھنے کے لیے بجھوایا جاتا ہے۔ اس بارے بھی والدین کو مؤثر نگرانی کا کوئی بندوبست کرنے پڑے گا۔ کیوں کہ حرمین شریفین میں عشروں سے درس دینے والا شیخ محمد مکی حجازی کا کہنا ہے کہ ’’اس بارے کسی بھی مولوی یا غیر مولوی پر اعتماد ہرگز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنے بچوں کی خاطر نگرانی کو یقینی بنانا چاہیے، تاکہ بعد کی شرمندگی اور افسوس سے بچا جاسکے ۔‘‘
میڈیا سے لیکن کیا شکوہ، خاص کر الیکٹرانک میڈیا جو کماؤ کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ حکومتِ وقت نے بھی تو ابھی تک وفاقی محتسب کے انکشافات پرباقاعدہ کوئی سرکاری ردعمل نہیں دیا۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں جو وفاقی محتسب نے کہا کہ اکثر ملزم بااثر سیاسی پس منظر والے ہیں؟ معاشرے کی اکثریت سمجھتی ہے کہ عمران خان کی حکومت جو تبدیلی کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی ہے، وہ اس معاملے میں کم از کم سیاسی مصلحت کا شکار نہ ہو اور ملزم چاہے کتنا ہی بااثرکیوں نہ ہو، اس کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ تاکہ قوم کے مستقبل کو محفوظ بنایاجاسکے۔
حکومت کے علاوہ سماج میں بسنے والا ہر فرد ذمہ دار ہے کہ اپنے گھر اور محلہ کے ارد گرد نظر رکھے۔ اجنبی لوگوں سے بازپرس کرے اور قوم کے بچوں کو ان درندوں سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کیوں کہ بچے معصوم اورجنت کے پھول ہوتے ہیں۔ ان پھولوں کو مہکانا چاہیے، مسلنا نہیں۔ بچوں پر جنسی زیادتی کا پس منظر جو بھی ہو، لیکن پیش منظر میں اس حوالے سے جو بھی مجرم ہے اس کو سرِعام پھانسی دے کر باقیوں کے لیے اسے نشانہ عبرت بنایا جائے۔ اس کے لیے حکومت،ریاست اور عدالت کو ایک پیج پر ہونا چاہیے۔

…………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔