خطے کا بدلتا منظرنامہ

افغانستان کے صدر اشرف غنی کے خصوصی نمائندے عمر داؤدزئی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ پاکستان افغانستان میں بحالیِ امن کے لیے مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستانی رویہ تبدیل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ افغانستان کے امن اور مذاکرات کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ اس طرح پاکستان کے ساتھ مختلف امور پر بات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ قبل ازیں افغان حکام تسلیم کرچکے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کرنے سے پہلے نہ صرف انہیں اعتماد میں لیا گیا، بلکہ ممتاز افغان سیاستدانوں کے ساتھ بھی مشاورت کی گئی۔ چناں چہ اس طرح اس سارے عمل کو افغان حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
زیادہ خوشی ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف کے بھارتی چینل این ڈی ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو دیکھ کر ہوئی۔ میزبان کی تمام تر چالاکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل میں پاکستان تعمیری کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت سے متعلق سوال کے جواب میں جواد ظریف نے کہا: "پاکستان نے افغانستان کے حوالے سے تعمیری اور مثبت مؤقف اپنایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان بھی نہیں چاہتا ہے کہ انتہا پسند گروہ افغانستان پر غلبہ حاصل کریں۔ انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر پاکستان کے لیے بھی بہت بڑے خطرے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ایران، افغانستان سے ملحقہ سرحدی صوبوں کی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے حوالے سے طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور طالبان کو بھی افغانستان کے مستقبل میں کردار اد کرنا چاہیے۔”
سب سے دلچسپ یوٹرن بھارت کے آرمی چیف بپن روات نے لیا۔ انہوں نے طالبان لیڈروں کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کی نہ صرف حمایت کر دی بلکہ کہا کہ جب سب طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں، تو بھارت کو بھی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن اور طالبان کے قومی دھارے میں آنے سے نہ پورے خطے بلکہ بھارت اور پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ یاد رہے کہ بھارت غالباً وہ واحد ملک ہے جو گذشتہ اٹھارہ برسوں میں طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا انہیں سیاسی عمل میں شراکت دار بنانے کا کٹر مخالف تھا۔ اب نہ صرف وہ اپنے مؤقف سے دست بردار ہوگیا ہے بلکہ گذشتہ سال نومبر میں روس کے دارلحکومت ماسکو میں ہونے والے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھارت کے ایک غیر سرکاری وفد نے شرکت بھی کی۔
چین ایک عرصے سے طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ وہ افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام کا بہت بڑا علم بردار ہے۔ کیوں کہ دونوں ممالک کی سرحد مشترک ہے۔ علاوہ ازیں بیلٹ اینڈ روٹ اینی شیٹیو کے تحت جو پاک چین اقتصادی راہداری زیرِ تکمیل ہے، اسے بھی ایک غیر مستحکم افغانستان سے خطرات لاحق ہیں۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں علیحدگی کی تحریک کو بھی خانہ جنگی کے شکار افغانستان سے شہ ملتی ہے۔ صدر اشرف غنی نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ چین کا کیا اور چینی لیڈر شپ سے درخواست کی کہ وہ علاقائی ممالک کو افغانستان میں امن و استحکام کے لیے راضی کرنے میں کردار ادا کرے۔ چین نے اس پس منظر میں روس، ایران اور پاکستان کے ساتھ مل کر طالبان کو ایک میز پر لانے اور امریکیوں کو پاکستان کے مرکزی کردار کو تسلیم کرنے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے روس، پاکستان اور امریکہ کے ساتھ چار ملکی گرو پ میں کردار ادا کیا اور ساتھ ساتھ افغان حکومت کو بھی مالی امداد اور جدید ہتھیار فراہم کیے۔ طالبان کے ساتھ براہِ راست رابطہ بھی رکھا۔
افغانستان میں مثبت کردار ادا کرنے سے پاکستان کا امیج عالمی سطح پر یک دم نہ صرف تبدیل ہوا ہے بلکہ وہ ایک اہم کھلاڑی کے طور پر ابھرنا شروع ہوچکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی لیڈر شپ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ افغان حکومت اور سیاست دان جو ہمیشہ پاکستان سے شاکی رہتے تھے، موجودہ حکومت کے کردا ر کی تحسین کرتے ہیں۔ ایران جو پاکستان کے افغانستان میں کردار پر نہ صرف ناراض رہا، بلکہ شمالی اتحاد کی بھارت اور روس کے ساتھ مل کر پشت پناہی بھی کرچکا ہے۔ اب پاکستان کی تعریف کر رہا ہے۔ پاکستان کے مثبت کردار سے روس بھی خوش نظر آ رہا ہے۔ کیوں کہ اگر افغانستان بدامنی کا شکار رہتا ہے، تو آئی ایس آئی ایس کے طرز کی تنظیمیں وسطی ایشیائی ممالک میں بھی جڑیں مضبوط کرسکتی ہیں۔ اس لیے روس نہ صرف خوش ہے بلکہ روسی قیادت مسلسل پاکستان کی پیٹھ ٹھونک رہی ہے کہ وہ علاقائی امن و استحکام کے لیے کردار ادا کرتا رہے۔
افغانستان میں قیامِ امن کا عمل ایک فیصلہ کُن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ کئی ایک قوتیں اسے سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ افغان حکومت کو اس عمل سے زیادہ دیر باہر رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والی ڈیل کی انہیں ریڈیو کے ذریعے اطلاع ملے یا پھر وہ اس کا کوئی سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ علاوہ ازیں صدر اشرف غنی کے ہمرکاب ایسے عناصر بھی ہیں جو طالبان کے کٹر مخالف ہیں۔ وہ ہر مرحلے پر طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل کے خلاف رہے ہیں۔
امریکہ اپنی مجبوریوں کے تحت افغانستان سے انخلا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امریکہ نے اپنی تاریخ کی سب طویل المدتی جنگ لڑی ہے۔سیکڑوں امریکی فوج اس جنگ کا ایندھن بنے۔ ایک ٹریلین ڈالرجنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا، لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات۔ امریکہ اور افغان حکومت کے لیے فیصلہ کن فتح آج بھی "ہنوز دلی دور است” والی بات ہے۔ بہت سارے بزرجمہر جو امریکہ کی ناکامی کا جشن منانے کے درپے ہیں، ان سے گذارش ہے کہ پاکستان پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے، اسے مزید آزمائش سے دوچار کرنے کی ضرورت ہے اور نہ دانشمندی۔ امریکہ کو رسوائی اور شکست کا احساس دلانے کی ضرورت نہیں۔ جو ہوا وہ نوشتۂ دیوار ہے۔ اس کی باعزت رخصتی پاکستان کے قومی مفاد میں ہے۔ وہ زخم خوردہ اور شاکی گھر لوٹے گا، تو پلٹ کر وار کرے گا۔ سُپر پاؤر سے دشمنی ایسے ہے جیسے جنگل میں شیر سے بیر۔

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔