آپ سب کو پتاہے کہ آٹھ اپریل دو ہزار دس کو اٹھارویں ترمیم کا کیا حال ہوا ہے؟ قریباً سات سے آٹھ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن تاحال مکمل طور پر صوبائی حکومتوں کو خود مختاری دینے اور ان کے آئینی و جائز حقوق دینے میں وفاقی حکومت سرد مہری سے کام لے رہی ہے۔ وفاق صوبوں کی رائلٹی کو قسطوں میں ادا کرنے کا ارادہ اور پروگرام رکھتا ہے، جو بھی ہو لیکن یہ قضیہ لازمی طور پر حل ہوجانا چاہیے۔
قارئین، حالا ت یہ ہیں کہ آئینِ پاکستان میں اتنی ترامیم کی جا چکی ہیں کہ اب مزید ترامیم کی گنجائش ہی نہیں۔ آنے والے وقت میں آئین کو پیچیدہ بنانے کا عمل وفاق اور صوبوں کے ساتھ ساتھ عدالتوں کو بھی اس کی تشریح کی مشکل کا لازم سامنا ہوگا۔ اس لیے آئین کو ’’ریوائز‘‘ کرنے کی اشد ضرورت ہے،جس کے لیے قومی قانون ساز حکومت کی تشکیل کا ایک مشکل فیصلہ کرنا ہوگا۔ تاکہ تمام صوبائی یونٹوں کا احساسِ محرومی ختم ہوسکے۔ قوانین کو یکجا کیا جاسکے یا اس کی ہیئت میں تبدیلی لاکر اسے معروض کے مطابق بنایا جاسکے۔
قارئین، پاکستان کی تمام اکائیاں قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ تمام صوبوں کے باسی اپنے وسائل میں حصہ لینے کے حق دار ہیں اور مبنی بر انصاف وسائل کی تقسیم وقت کا تقاضا ہے۔ ایسی مبہم اور غیر واضح صورت حال میں تمام صوبائی یونٹوں کو اختیارات دینے میں ٹال مٹول سے صوبوں میں نفرت پیدا ہوگی۔ کسی ایک صوبے کا حق دوسرے کو دینا ناانصافی ہی نہیں ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ مہذب دنیا کی مثال لے لیں جہاں خود مختیار ریاستوں میں تمام عام قوانین نافذالعمل ہوتے ہیں ۔
میرا یقین کی حد تک گمان ہے کہ صوبوں کو مکمل خودمختاری دینے سے صوبوں میں ہم آہنگی آسکتی ہے۔ خود مختاری کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مذکورہ خود مختار ریاستیں پاکستان کے وجود اور الحاق سے بے نیاز ہو کر رہ جائیں، بلکہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سے پاکستان کی ترقی، سالمیت اور بقا کا تصور مزید محفوظ ہوجائے گا اور ملکِ عظیم پُرامن ہو جائے گا۔
قارئین، جدید ریاستوں میں دستور ہے کہ وہ برابری کے حق کو مانتے ہیں۔ اس لیے دوسرے صوبوں کے وسائل میں چھوٹے بڑے کی تمیز کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جس طرح سینٹ ایوانِ بالامیں تمام اکائیوں کی سیٹیں برابر ہوتی ہیں، ٹھیک اسی طرح ایوانِ بالا کومختلف اکائیوں کے وسائل پر ان کا حق کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔ ’’فیڈرل ایکس چیکر‘‘ کے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے اس مسئلے میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہونا لازمی ہے۔ اربابِ اقتدار کو اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کے ساتھ صوبوں کی سطح پر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ صوبوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں واضح اور دو ٹوک اقدامات پاکستان کی بقا، خوشحالی، ترقی اور سالمیت کے لیے ناگزیر ہیں۔ پاکستان کے آئین کو ’’ریوائز‘‘ کرنے یا جدید آئین کو معروض کے حالات کے تناظر میں اور اس میں کنفیڈریشن کے نظریہ کو ڈالنے کا وقت آپہنچا ہے۔اس مد میں دیدہ دانستہ اس مسئلے کو طول دینے کا عمل حکومت اور ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کی چھپی اثرپذیری کو آشکارا کر رہا ہے، اور یہ عمل سازش پر مبنی اور اتفاق کو پارا پارا کرنے کے مترادف ہے۔
اس سے ہوگا یہ کہ پورے ملک کی خاطر قانون ساز اسمبلی بھی ملک کی اکائیوں کے لیے قانون بنانے کی خاطر آزاد ادارہ تصور ہوگی۔ جب کہ وفاق کی مرکزیت اور جبری بالادستی ختم ہوجائے گی۔ کرپشن اور احتساب کے لیے صوبے خود مختار بن جائیں گے۔ صوبے اپنے کام کے لیے وفاق کے محتاج نہیں رہیں گے۔ مختلف قسم کے ’’آوٹ ڈیٹڈ‘‘ قوانین کا خاتمہ ہوسکے گا۔ اگر ایک طرف عوام کی خواہش کے تناظر میں وفاق کو مضبوط کرنے کے لیے صوبائی اکائیوں کو اختیارات فراہم کرنا خود وفاق کو مضبوط بنانے کا سبب بنے گا، تو دوسری طرف وفاق پر بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔ کسی بھی صوبے کے وسائل پر پہلا حق اس کے عوام کا ہے۔خارجہ اور دفاع وغیرہ کو چھوڑ کر وفاق پر اداروں کا بوجھ کم ہو جائے، یہی وفاقیت کا مقصود ہوتا ہے۔
قارئین، اس ضمن میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو جو ضروری کام کرنے ہیں، وہ نہیں کر رہے۔ البتہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لیے سب تیار ہیں۔ دوسری طرف بے جا طور پر مروج ان گنت قوانین کے تحت وفاقی و صوبائی ادارے ایک دوسرے کے کام میں دخل اندازی کرتے رہتے ہیں۔ نئے آئین میں کنفیڈریشن کے تصور سے یا وفاق میں صوبائی خود مختاری دینے کی وجہ سے قانون کی حکمرانی کا تصور شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ دوسری طرف ادارے بلا وجہ ایک دوسرے کے معاملہ میں ٹانگ نہیں اَڑا سکیں گے۔
اس عمل کا فائدہ اگر ایک طرف نیشنل انٹرسٹ اور خارجہ کے مسائل حل ہونے کی شکل ملے گا، تو دوسری طرف داخلی خلفشار اور بے چینی میں بھی کمی آجائے گی۔ مستقبلِ قریب میں اس عمل سے امن و امان کی صورتحال میں بہتری بھی آسکتی ہے۔
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔