27 دسمبر 2007ء میں برطانیہ میں شام ڈھلنے والی تھی، میں ٹاؤن سنٹر سے گھر جلدی جلدی واپس جا رہا تھا۔ کیوں کہ مجھے اپنی جاب پہ جانا تھا۔ ایسے دن کے آخری لمحات (مازیگر) انسانی چہل پہل کی وجہ سے خوبصورت اور رنگین ہوتے ہیں جب کہ انسانی سرگرمیاں ماند پڑجانے سے شام پر ایک نامعلوم سی اداسی چھانے لگتی ہے۔ راستے میں ایک قریبی دوست محمد وہاب کی ایک فون کال نے میری شام کو اس وقت اور بھی سوگوار بنا دیا، جب اس نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کی درد بھری خبر سنا دی۔
تماشہ ساز وی مازیگر سائیلہؔ
ماخام رقیب وی تماشہ ورانوی
(عصر کے وقت ماحول میں گہماگہمی کی وجہ سے رنگینی چھاجاتی ہے جب کہ شام کے گہرے سائے رقیب کی طرح رنگ میں بھنگ ڈال دیتے ہیں)
اس وقت ملک میں دہشت گردی کی نہ رُکنے والی تیز وتند لہر چل رہی تھی، جس سے ہر ادارے کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوگئی تھی۔ روزانہ درجنو ں کے حساب سے دھماکے اور اہم مقامات پر لوگوں کے ہجوم پر فائرنگ کے واقعات نے زندگی کو مفلوج بنا کر رکھ دیا تھا۔ پاکستان کو سفارتی ناکامی اور دنیا میں تنہائی کا سامناتھا۔ دنیا کو ایک خاص طبقہ یہ تاثر دے رہا تھا کہ پاکستان دنیا کے امن کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے اور جہاں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اس کے ڈاندے لوگ دانستہ طور پاکستان کے ساتھ ملاتے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد حالات کا یہ بھی تقاضا تھا کہ ایک حقیقی جمہوری اور عوامی قیادت آکر ملک کو مسائل کے بھنور سے نکال دے۔ کیوں کہ اس وقت پاکستان میں جس مصنوعی اور جعلی جمہوریت کی کھوکھلی عمارت کھڑی کر دی گئی تھی، وہ عوامی حمایت سے محروم اور بین الاقوامی اعتماد کھو چکی تھی۔ اس میں اتنی سفارتی مہارت نہ تھی کہ دنیا میں پاکستان کا مقدمہ لڑکر ملک کو سفارتی تنہائی سے نکال سکے۔
پاکستان کے صاحبِ فہم طبقے نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ وہ ہی اس ملک کو سفارتی تنہائی اور مسلسل ناکامیوں کی دلدل سے باہر نکال سکتی ہیں۔ سب لوگوں کو پختہ یقین تھا کہ بے نظیر میں اتنی قائدانہ صلاحیت ہے کہ وہ پاکستان میں غیر مستحکم جمہوریت، فریب کاریوں، مذہبی انتہا پسندی اور غیر ملکی خاص کر امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب کے اثر رسوخ سے بالاتر ہوکر پاکستانی سیاست میں مثبت کردار اداکرسکتی ہیں۔ اور اپنی طویل مزاحمتی سیاسی جدوجہد کے تجربے کو بروئے کار لاکرجمہوریت، سیکولرزم اور اعتدال پسندی کے نصب العین کی خاطر لوگوں کو اکٹھا کرسکتی ہیں۔
اس سوچ اور دباؤ سے مجبور ہو کر پاکستانی اور بین الاقوام اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کے پاکستان واپس جانے کی راہ ہموار کی۔ نتیجتاً بے نظیر بھٹو نے 15 اگست 2007ء کو یو ایس اے کی کونسل برائے خارجہ تعلقات کی ایک میٹنگ میں یہ اعلان کیا کہ وہ آئندہ انتخابات سے پہلے پاکستان جا کرانتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتی ہیں، لیکن اپنے خاندانی سیاسی پس منظر اور شہید باپ کی کال کوٹھڑی میں اصولی مؤقف پر ڈٹ کر رہنے سے وہ یہ بات سیکھ چکی تھیں کہ مصالحت کا دوسرا نام ’’منافقت‘‘ ہے۔ ہر حال میں اپنے ایجنڈے کو بلا خوف و خطر بیان کرنا چاہیے۔ انہوں نے بہت کھل کر اپنا ایجنڈا اس میٹنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا کہ ’’میں پاکستان کی ایسی قیادت کرنا چاہتی ہوں جو فوجی آمریت کے بوجھ سے آزاد ہو اور ملک بین الاقوامی دہشت گردی کا گڑھ نہ رہے۔ ایک جمہوری پاکستان، جو منشیات کے ٹھیکیداروں کا تعاقب کرے اورآج دہشت گردی کی فنڈنگ کرنے والے منشیات فروشی کے دھندے کا خاتمہ کرے۔ انہوں نے اس میٹنگ میں واضح کیا تھا کہ ہم ایک جمہوری پاکستان کے لیے جدوجہد کریں گے جو اپنے عوام کی بہبود کو قومی پالیسی کا محور بنائے گی اور آخر میں اس جملے کے نتائج کی پروا کیے بغیر کہہ ڈالا کہ ’’عسکریت پسندی اور انتہاپسندی کی قوتوں سے دو دو ہاتھ کریں گے۔ (بہ حوالہ: ’’بینظیر بھٹو کا قاتل بچ نکلا‘‘)
ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ ان الفاظ کے مضمرات اور نتایج سے بے خبر تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ انہوں نے جن مؤثر قوتوں کو للکارا ہے وہ ضرور ان کا راستہ روکنے کے لیے حرکت میں آئیں گی، لیکن ان کو خاطر میں لائے بغیر ستمبر 2007ء میں آپ نے ایک مضمون کے ذریعے جو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا تھا، پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ ’’پاکستان کو درپیش مرکزی چیلنج اعتدال پسندی بمقابلہ انتہاپسندی ہے‘‘ میں وطن جاکر اس میں کردار اداکروں گی۔ اور جب میری فلائٹ پاکستان میں لینڈ کرے گی، تو عوام خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔میں بہتری کے لیے دعاگو اور بدتر کے لیے تیار ہوں۔
وہ دو دفعہ وزیراعظم رہ چکی تھیں۔ اس کے علاوہ دنیا میں موجودہ معاشی، سیاسی اور دہشت گردی کی سمت سے باخبر تھیں۔ وہ ان قوتوں کے طاقت و زور سے بھی اچھی طرح واقف تھیں، جنہوں نے دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ انہیں خود بھی یقین تھا کہ وہ ایک خطرناک اور دشوار گزار راستے پر چل نکلی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ کا حوالہ دینا انتہائی اہم اور متعلقہ سمجھتا ہوں۔ وہ اکتوبر2007ء کے پہلے ہفتے ایک پرواز کے ذریعے زلمے خلیل زاد اور ان کی بیوی کے ساتھ ’’کولو راڈو‘‘ کی طرف جا رہی تھیں۔ فلائٹ کے اہلکار نے جب بینظیر کو کچھ بسکٹ پیش کیے، تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کیاکہ وہ اپنا وزن کم کرنا چاہتی ہیں لیکن پھر انہوں نے اہلکار کو واپس بلایا اور ایک خوفناک پُرمعنی جملہ کہا: ’’اوہ،کوئی فرق نہیں پڑتا، ویسے بھی میں چند ماہ میں مر جاؤں گی۔‘‘
18 اکتوبر کو جب ان کی فلائٹ کراچی کے ائرپورٹ پر اتری، تو لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے آئے ہوئے تھے لیکن دہشت گرد بھی پوری تیاری کر چکے تھے۔ مزار قائد کی طرف جاتے ہوئے ان پر دو خودکش دھماکے ہوئے۔ دھماکوں کی کان پڑی آواز نے ان کی سماعت مفلوج کردی اور سیکڑوں بے گناہ لوگ شہید ہوگئے لیکن اس جان لیوا حملے نے ان کی جرأت اور عزم میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ وہ پہلے کی طرح پُرعزم اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔
26 دسمبر 2007ء کو پشاور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ایجنڈے کو پھر دہرایا کہ میں ہر حا ل میں ان دہشت گردوں سے نمٹ لوں گی۔ پشاور کے جلسے میں ایک دفعہ پھردہشت گردوں نے ایک اور خودکش دھماکا کیا جس سے وہ ڈری اور نہ ان کے ارادے متزلزل ہوئے۔ جلسے کے بعد جناب قمرعباس مرحوم کے فاتحہ کے دوران میں انہوں نے جنرل نصیراللہ بابر سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران میں جنرل صاحب نے صاف صاف مشورہ دیا کہ لیاقت باغ جلسہ میں جانا خطرناک ہے۔ اس کے بعد رات کو آئی ایس آئی والوں نے جلسہ منعقد نہ کرانے کے لیے بہت منت سماجت کی، لیکن وہ اپنی خاندانی بہادری اور جرأت کے سامنے بے بس تھی اور ممکنہ قتل گاہ میں جلسہ کرنے کا اٹل فیصلہ کرچکی تھی۔
اور آخرِکار 27 دسمبر2007ء کو لیاقت باغ میں کامیاب جلسہ کرنے کے بعد جب انہوں نے پُرجوش جیالوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے اپنی گاڑی کی بالائی ونڈو سے اپنا سر باہر نکالا، تو یوں دہشت گردوں کو حملہ کرنے کا ایک آسان موقع مل گیا اور ا ن وحشی درندوں نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر بربریت اور ظلم کا اپنا ایجنڈا پورا کیا اور بھٹو خاندان کی آخری بہادر سپوت بھی اپنے بہادر باپ کی طرح راولپنڈی میں انتہا پسندی کا شکار ہوگئی۔ ان کی شہادت سے پاکستان کے محنت کش طبقہ کے لیے لبرل، سوشل اور جمہوری ریاست بنانے کی آخری شمع لیاقت باغ میں ہمیشہ کے لیے گُل ہوگئی۔
سڑے چی مڑ شی کور پری وران شی
پہ بعضو خلقو باندے وران شی وطنونہ
(جب انسان مرجاتا ہے تو اس سے ایک گھرانا تباہی سے دوچار ہوجاتا ہے، لیکن بعض لوگ جب مرتے ہیں ان کی وجہ سے ممالک اجڑ جاتے ہیں)
چوں کہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ بہت قریب سے بینظیر بھٹو کو جانتے تھے، اس لیے ان کی شہادت پر شیرپاؤ نے حقیقت پر مبنی تبصرہ کیا تھاکہ ’’بی بی ایک بہادر لڑکی تھی۔‘‘
بھٹو خاندان کے تمام افراد اپنی بہادری اور اصولی مؤقف پر ہر حال میں ڈٹے رہنے کی وجہ سے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ایک بات طے ہے کہ ان کے اس اصولی مؤقف اور جرأت نے پارٹی کو پاکستانی سیاست میں ناقابل شکست بنادیا تھا۔
جب تک پی پی کی موجودہ قیادت مصلحت والی سیاست نہیں چھوڑتی اور بھٹو خاندان کی اصولی اور ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمتی سیاست کی روش نہیں اپناتی، تو پارٹی عوامی حمایت سے محروم رہے گی۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔