سر دست کتاب کی پشت پر امجد علی سحابؔ کا لکھا گیا اک پیراگراف ملاحظہ ہو: ’’دو طریقوں سے دنیا کی خوبصورتی سے لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ پہلا طریقہ یہ کہ جس ملک کی سیرمقصود ہو ٹکٹ کٹایا جائے اور وہاں گھوم پھر کر واپسی کی راہ ناپی جائے۔ دوسرا یہ کہ اپنے کسی پسندیدہ ملک پر لکھا گیا اچھا سا سفرنامہ خرید کر پڑھا جائے۔‘‘

استادِ محترم فضل خالق صاحب نہ صرف ایک قابل او تجربہ کار صحافی ہیں بلکہ شاعر، سیاح، سماجی کارکن اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں،جس وقت سوات میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا جا رہا تھا، اس وقت سوات سے تعلق رکھنے والی کئی صحافیوں، سیاسی اور سماجی شخصیات نے اپنا سر ہتھیلی پررکھ رکر سوات کا مقدمہ تحریر و تقریر کی ذریعے لڑا۔ فضل خالق کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی تحریرکے بل بوتے پر سوات کا مقدمہ بڑی جواں مردی سے لڑا۔ وہ سوات میں دہشت گردی، یہاں کے سیاحتی، تہذیبی اور سیاسی موضوع پرتسلسل سے لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ انہیں سوات کی قدیم تہذیب اور آثار قدیمہ پر لکھنے کا ملکہ حاصل ہے اور یہی خصوصیت انہیں سوات میں دیگر صحافیوں کے مقابلہ میں ممتاز کرتی ہے۔ ’’ہرقدم آوارگی‘‘ فضل خالق کی آٹھواں تخلیق ہے۔ اس تحریر میں ذکرشدہ کتاب پر گفتگو کی جائے گی۔
قارئین، اس کتاب کے نام نے میری طرح آپ کو بھی کشمکش میں مبتلا کیاہوگا، لیکن اس کتاب میں’’آوارگی‘‘ نام کی کوئی شے مجھے نظر نہ آئی۔ فضل خالق صاحب جس کو ’’آوارگی‘‘ کہہ رہے ہیں، وہ میرے نزدیک بغاوت ہے۔بصد احترام میں فضل خالق صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ میں نے ان کی آوارگی کو ایک نئے معنی اور تشریح دی۔ لیکن میں نے ان کی کتابوں اور تحریروں کو پڑھ کر جو کچھ محسوس کیا ہے، وہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا اور میرا تجزیہ ان کے بارے میں یہی ہے کہ فضل خالق ایک باغی ہیں، اس سماج کے فرسودہ رسم و رواج سے،ظلم و بربریت کے اس نظام سے، ان مذہبی ٹھیکیداروں سے جس میں ہر ایک نے مذہب کے نام پر اپنی اپنی دوکان کھول رکھی ہے۔ ہرایک قرآن مجید اور حدیث شریف کو اپنی من پسند تشریح دے کر نشر و اشاعت کرتا رہتا ہے۔ یہ کتاب ’’ہر قدم آوارگی‘‘ بظاہر ایک سفرنامہ ہے لیکن حقیقت میں یہ حکمرانوں کو شرمندہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ اگر ایک طرف اس کتاب کے ذریعے ان حکمرانوں، نام نہاد محبانِ وطن اور مذہب کے نام پر قوم کو ’’رانگ نمبر‘‘ تھمانے والوں کی نا اہلی کا پردہ فاش کیا گیا ہے، تو دوسری طرف یہ کتاب نوجوانوں، اساتذہ کرام اور اس معاشرے سے جڑے ہوئے ہر شخص کیلئے گویا مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنی چار ملکی ’’یاترا‘‘ کے بارے میں لکھا ہے، جس میں انڈونیشیا، سری لنکا، اٹلی اور ازبکستان کے سفر کے دوران میں رونما ہونے والے واقعات، وہاں کے مذہبی، سماجی اور قومی رسم و رواج، تاریخ اوروہاں کے آثار قدیمہ کے ساتھ ساتھ وہاں کی ترقی کے راز بھی شامل ہیں کہ کس طرح یہ ممالک آج ترقی کرگئے ہیں۔

کتاب میں جو طرزِ تحریر اپنائی گئی ہے، وہ میرے لئے بالکل نئی ہے۔ میں عموماً سفرنامے بہت کم پڑھتا ہوں، لیکن جب میں نے ’’ہر قدم آوارگی‘‘ کا مطالعہ شروع کیا، تو پہلے ہی صفحہ نے میری تمام تر توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ پہلی بار جب میں کتاب پڑھ رہاتھا، تو رات کا وقت تھا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کی نیند کی وجہ سے مزید پڑھنا ممکن نہ تھا، لیکن خوبصورت طرزِ تحریر کے عشق میں، مَیں اتنا مبتلا ہوچکا تھا کہ ایک ہی رات میں پوری کتاب پڑھ لی۔جو مزہ میں نے اس کتاب کو پڑھنے سے لیا، شائد نیند میں وہ مزہ اور سکون نصیب ہوتا۔ کیوں کہ عام طور جب ہم سو جاتے ہیں، تو طرح طرح کے سپنے دیکھتے ہیں۔ کبھی امیر بننے کے سپنے، تو کبھی اپنی ادھورے پیار کو پانے کے سپنے، لیکن میں نے اس رات جاگتے ہوئے سپنے دیکھے۔ جس وقت پہلا باب پڑھ رہا تھا، اور اپنے ملک کی تباہ حال ایئرلائن کے مقابلے میں جب سری لنکن ایئرلائن کی اچھی سروس اور بااخلاق عملے کے حوالہ سے پڑھا، تو انگشت بدنداں رہ گیا کہ آخر اس مملکت خداد کے حکمرانوں کو کب ہدایت نصیب ہوگی؟ میں مصنف کی زبانی وہ سارا معاملہ آپ کے سامنے رکھنے جا رہا ہوں۔ آپ خود انصاف کیجئے۔ مصنف نے کتاب کے صفحہ نمبر سترہ پر جکارتہ کے سفر کے حوالے سے کچھ یوں لکھا ہے:

’’جکارتہ کے لیے میں نے سری لنکن ائیر لائن کا انتخاب کیاتھا، جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ سب سے سستی ائیر لائن تھی۔ میں جب جہاز میں بیٹھا نہیں تھا، تو اسے ایک عام اور کم معیار والا جہاز سمجھ رہا تھا۔ کیوں کہ پاکستان سے جکارتہ جانے والی تمام پروازوں میں یہ سستا ترین تھی، جس کی قیمتوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا، یعنی تقریباً ففٹی ففٹی۔ مگر جب میں جہاز کے اندر گیا اور اس کے معیار اور جہاز کے عملے کے اخلاق اور سروس کو دیکھا، تو حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ گو کہ جہاز ’’امارات‘‘ یا ’’تھائی‘‘ یا ’’قطرائیرلائن‘‘کی طرح بڑا نہیں تھا، مگر سروس میں ان سے کسی طور بھی کم نہ تھا۔ جہاز میں بیٹھے میری سوچ پی آئی اے کی طرف گئی، لیکن میرے دماغ میں افسوس کے سوا مزید کچھ نہ تھا۔ دنیا کی باقی تمام ائیرلائنیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں، مگر ہمارے ملک کی ایئرلائن جو کبھی دنیا کی بہترین ائیرلائنوں میں شمار ہوتی تھی، آج سب سے بے کار بن چکی ہے۔ خیر اس وقت میں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن نہیں بلکہ جکارتہ کے سفرکی روداد سنانے جا رہا ہوں، اس لیے ’’باکمال‘‘ لوگوں کی ’’لاجواب‘‘ سروس پر پھر کبھی بات ہوگی۔‘‘
مصنف نے جب کبھی اپنے سفر کے دوران میں ترقی دیکھی ہے، وہاں ان کو اپنی دیس کی بربادی نے رُلایا ضرور ہے۔ بس اسٹینڈ ہوں یا ریلوے اسٹینڈ،پکی سڑکیں ہوں یا صحت کے مراکز یا پھر تعلیمی مراکز، مصنف نے اس کا موزانہ اپنے دیس کے ساتھ ضرورکیا ہے۔ اس ملک میں کرپشن، نااہلی اوراقربا پروری جیسی لعنتوں پرخون کے آنسو روتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب میں یہ سطور پڑھ رہا تھا، تو میری بھی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب اس کتاب نے مجھے بھی ’’بغاوت‘‘ کرنے پر مجبور کیا۔

جب میں کتاب کا صفحہ نمبر 22 پڑھنے لگا، تو مجھے بالکل یہ احساس نہ تھا کہ اب مصنف مجھ جیسے کمزور دل والوں کو ایک اجنبی دوشیزہ کے پیار میں مبتلا کرنے کی ’’سازش‘‘ کرے گا، لیکن میں نے کتاب کا مطالعہ جاری رکھا۔ جیسے جیسے آگے بڑھنے لگا، تو میں بھی ’’برونٹی‘‘ (فضل صاحب کے ایک افسانے کا کردار) کے پیار میں دیوانہ ہوتا گیا۔ زندگی یک دم آہ و پکار سے پیار و محبت کی وادیوں میں داخل ہوگئی اور مجھے احساس تک نہ ہوا۔ خود کو اس آوارگی سے بچانے کی لاکھ کوششیں کیں لیکن برونٹی کی جھیل سے گہری آنکھوں اور لہراتی ہوئی سیاہ زلفوں کی جادوئی اثر نے مجھے اپنی آغوش میں اس طرح سمیٹ لیاکہ چاہتے ہوئے بھی میں اس حسن کی دیوی سے دور نہ بھاگ سکا۔ اور یوں کبھی رومانس تو کبھی اپنی قوم کے زوال کو دیکھ کر رونا دھونا جاری رہا۔ اس طرح یہ کتاب میں نے پڑھی جو میں سمجھتا ہوں کہ جتنی بھی کتابیں میں نے آج تک پڑھی ہیں، اگر اس کی درجہ بندی کروں، تو یہ کتاب مرغوب ترین کتابوں کی لسٹ میں رہے گی۔

افسانے کا ایک کرادر ’’برونٹی‘‘ نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک خوبصورت دوشیزہ ہے جس کی آنکھوں میں بینائی نہیں ہے۔ مصنف سے برونٹی کی ملاقات انڈونیشیا میں ہوتی ہے اور پہلی نظر میں مصنف اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اپنی تحریر کے ذریعے مصنف تمام پڑھنے والوں کو بھی ’’برونٹی‘‘ کے عشق میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جو بھی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا، وہ برونٹی کے عشق میں مبتلا ضرور ہوگا۔