ابوظہبی مذاکراتی دور، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

افغانستان میں قیامِ امن کے لیے ابو ظہبی کا اہم مذاکراتی دور مکمل ہوچکا۔ امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کا اس حوالہ سے کہنا ہے کہ ’’افغانستان کے لیے میری سوچ یہ ہے کہ یہ وہ ملک ہوگا جہاں امن ہوگا، ایک ایسا افغانستان جو کامیاب ہوگا، وہ افغانستان جو اپنے لیے خطرے کا باعث نہ بنے گا (یعنی افغانوں کے درمیان امن برقرار ہوگا) اور ایک ایسا افغانستان جو بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کا باعث نہیں بنے گا۔ چوں کہ میں افغانستان کی نمائندگی کرتا ہوں، اس لیے خاص طور پر یہ کہ ایک ایسا افغانستان جو امریکہ کے لیے ہرگز خطرہ نہ بنے۔‘‘
’’ری پبلکن پارٹی‘‘ سے تعلق رکھنے والے زلمے خلیل زاد جب سے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی نامزد ہوئے ہیں، افغانستان میں قیامِ امن کے لیے متحرک نظر آتے ہیں۔ افغان طالبان نے زلمے خلیل زاد کی نامزدگی پر کہا تھا کہ ’’بلاشبہ اب وہ وقت ہے، جس طرح روس نے افغانستان میں شکست اور ناکامی کے بعد ایک ریٹائرڈ آفیسسر ’’وارنسوف‘‘ کو بھیج کر یہ ٹاسک دیا تھا کہ وہ افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے لیے محفوظ راستوں کا تعین کریں، یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ خلیل زاد کی ذمہ داری بھی وارنسوف کی جیسی ہے۔ ان کی آمد کا مقصد امریکہ کی محفوظ واپسی ہے۔‘‘
زلمے خلیل زاد افغانستان کے شہر مزار شریف میں 22 مارچ 1951ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک تاجر، ماہر بین الاقوامی امور اور سفارت کار ہیں۔ جارج بش کابینہ میں امریکہ کی جانب سے سفیر برائے اقوامِ متحدہ مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ امریکی سفیر برائے افغانستان اور پھر امریکی سفیر برائے عراق بھی مقرر ہوئے۔ وہ امریکی وائٹ ہاؤس، سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پنٹاگون میں امریکی پالیسی تشکیل دینے والی کمیٹیوں کے رکن بھی رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے جب دوحہ قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر میں ملاقات کا دوسرا دور شروع کیا، تو افغان طالبان نے زلمے خلیل زاد کو سنجیدہ کوشش کرنے اور افغانستان کے زمینی حقائق کو سمجھنے والا قرار دیتے ہوئے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ پاکستان بھی زلمے خلیل زاد کے کردار سے مطمئن ہے اور انہیں قیامِ امن کے لیے مثبت سوچ رکھنے والی شخصیت سمجھتے ہیں۔ ماسکو کانفرنس کے انعقاد پر بھی افغان طالبان نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اماراتِ اسلامیہ افغانستان اس طرح کانفرنسوں کے انعقاد کو تنازعہ کے حل کی جانب مثبت قدم سمجھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کیوں کہ جنگ کا مسئلہ ہمیشہ افہام و تفہیم اور سیاسی تعامل کے ذریعے حل ہوتا ہے۔ یہ کہ امریکی حکومت نے بھی اس کانفرنس کو اپنا نمائندہ بھیجا تھا، تو یہ بہترین اقدام ہے۔ امید ہے کہ مخالف پہلو مستقبل میں اس سے اعلیٰ سطح اور مؤثر طور پر اس افہام و تفہیم کے منصوبے میں شرکت کریں گے اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ قابض افواج کے خروج سے اس جنگ کو ختم کر دیں گے۔‘‘
صدر ٹرمپ نے جب پاکستانی وزیر اعظم کو خط میں افغان طالبان سے مذاکرات کرانے کے لیے تعاون کی درخواست کی، تو مراسلے میں زلمے خلیل زاد سے تعاون کا بھی ذکر کیا گیا۔ مراسلہ موصول ہونے کے بعد امریکی خصوصی ایلچی پاکستان آئے اور پاکستان نے خصوصی طور پر ان سے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی تھی کہ’’ امریکی نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد کا حالیہ دورۂ پاکستان افغان امن کے حوالے سے مدد مانگنے کے لیے ہی تھا۔‘‘ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا تھا کہ ’’امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور پاکستان، زلمے خلیل زاد خطے کے دورہ کے دوران میں پاکستان، افغانستان، روس، ازبکستان، ترکمانستان، بلجیم، متحدہ عرب امارات اور قطر جائیں گے، جہاں وہ مختلف سفارتی وفود اور حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کریں گے۔ زلمے خلیل اس بات کی بھی کوشش کریں گے کہ مذاکرات کے ذریعے تنازع کا تصفیہ تلاش کیا جائے۔‘‘
جب کہ اس حوالہ سے زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ’’ وہ امریکی حکومت کی جامع ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں، ان کی ٹیم میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، پینٹاگون، وائٹ ہاؤس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کے ارکان بھی شامل ہیں۔‘‘
زلمے خلیل زاد کا زیادہ انحصار پاکستان پر ہے۔ اس لیے تسلسل کے ساتھ حکومت سے بھی رابطے میں ہے۔ ابو ظہبی کانفرنس کے بعد دوبارہ امریکی خصوصی ایلچی کا دورۂ پاکستان اس بات کا اظہار تھا کہ زلمے خلیل زاد سنجیدگی کے ساتھ قیامِ امن کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کابل انتظامیہ بار بار اس نکتے کو اٹھاتی ہے کہ جو بھی مذاکرات ہوں، اُن کی سربراہی میں کیے جائیں، لیکن افغان طالبان اس پر متعدد بار واضح مؤقف دے چکے ہیں کہ کابل انتظامیہ کے پاس اختیارات نہیں، اس لیے امریکہ سے ہی براہِ راست مذاکرات کیے جائیں گے۔ اقوامِ متحدہ کے لیے سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کا ماننا ہے کہ ’’پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔‘‘
زلمے خلیل زاد نے دونوں جانب سے حالیہ گرمجوشی کے بارے میں کہا کہ میرا نہیں خیال کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر بھروسا کرتے ہیں، حالیہ گرمجوشی یہ دیکھنے کے لیے ہے کہ کیا وہ ایک دوسرے پر بھروسا کر سکتے ہیں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ ملاقاتیں اور دورے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت عملی اقدامات کی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب اسلام آباد میں ایک ’’سلوگن‘‘ دیکھا جا رہا ہے کہ ’’لٹس کلین اَپ‘‘ (Let’s Clean up) میرے خیال سے یہ ایک اچھا سلوگن ہے۔
قارئین، اب دنیا کی نظریں ابوظہبی میں ہونے والے اہم ترین مذاکراتی دور پر ٹکی ہوئی ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان سے جب سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے، مذاکرات میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ دوحہ قطر میں طویل مذاکرات اور امریکی اعلیٰ عہدے داروں کی دوحہ قطر سیاسی دفتر میں آمد کے بعد توقعات یہی ظاہر کی جا رہی ہیں کہ 2019ء کا سال افغانستان کے لیے اچھی خبر لا سکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے امریکہ کا کردار اہم ہے۔ کیوں کہ ماضی میں جب بھی مذاکرات کا عمل کسی متفقہ ایجنڈے کی جانب گامزن ہوتا، تو ایسے واقعات رونما کردیے جاتے جس سے تمام کوششیں رائیگاں چلی جاتیں۔ اس وقت امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کا اہم ترین دور چل رہا ہے۔ زلمے خلیل زاد مسلسل پاکستان اور کابل انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہیں، لیکن صدر ٹرمپ نے اپنے ایک انٹرویو میں بے یقینی کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ ’’ مذاکرات شاید کامیاب نہ ہو ں۔‘‘
دوسری طرف کابل انتظامیہ کا کردار بھی ابھی واضح نہیں۔ کابل سہ ملکی کانفرنس میں جب پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا، تو ایک مرتبہ پھر کابل انتظامیہ نے پاکستان پر الزامات عائد کرنے کا عمل شروع کیا، جس سے فضا مکدر ہوئی۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سہ ملکی مذاکرات میں شرکت کے لیے ہفتے کو یک روزہ دورے پر افغانستان پہنچے تھے۔ چینی وزیر خارجہ کے ہمراہ علاقائی سطح پر قیامِ امن کی خاطر اپنی نوعیت کی یہ دوسری کانفرنس تھی۔ اس موقع پر افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کا اپنے پاکستانی ہم منصب سے مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ امن کے حصول کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’’ہم امن کے لیے پاکستان سے مثبت نتیجے پر مبنی اقدامات اور مصالحتی عمل کے لیے اس کی مخلص حمایت چاہتے ہیں۔‘‘
اس کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے علاقائی کشیدگی کا ذمے دار کابل حکومت کو ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا: ’’اگر افغانستان امن چاہتا ہے، تو اسے پاکستان پر انگلیاں اٹھانے کا عمل بند کرنا ہوگا۔‘‘ اس تمام تر صورتحال میں دیکھنا ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔