سولہ دسمبر پہ کیا کہوں اور کس کا ذکر کروں؟ سقوطِ ڈھاکہ کا یا سانحۂ اے پی ایس پشاور کا؟ تذبذب کا شکار ہوں۔ شاید سانحۂ پشاور کا ذکر کرنا چاہیے۔ ’’قدرت‘‘ نے یہ سانحہ پچھلے سانحہ کے مقابلہ میں بہت بھاری بنا کر ’’اُتارا‘‘۔ بچے ہنستے کھیلتے سکول گئے تھے، چھٹی میں ان کی لاشیں واپس لائی گئیں۔ اس سانحہ کا اب تک کوئی ’’سراغ‘‘ نہ مل سکا۔ ایک ملا تھا، اسے ہم نے ’’مہمان‘‘ بنایا ہوا ہے۔ سوچتا ہوں یہ کس کی غلطی تھی؟ شاید گیٹ پر کھڑے گارڈ کی جو ’’مقابلہ‘‘ نہ کر پایا، یا پھر ان ماؤں کی جنہوں نے اپنے بچوں کو پڑھنے بھیجا؟ انہیں کیوں مارا گیا؟ شائد کل ان بچوں نے پاکستان کا نام روشن کرنا تھا۔ ہم سب کو وہ دن یاد ہے، ٹی وی سکرین پر رقت آمیز مناظر اور آنسوؤں کی لڑیاں، پوری فضا میں سوگ برپا، ملک کیا، پوری دنیا لرز اٹھی تھی۔ سوچیں، اگر ذات پات، رنگ نسل، مذہب اور ہر شے سے بالاتر ہو کر سب اس غم میں روئے، تو اس ماں پر کیا گزری ہوگی، جس کے بچے نشانہ پر تھے! ماں، ایک چھوٹے سے تابوت میں پڑی ’’لاش‘‘ کی زندہ لاش ’’ماں‘‘۔ اس ماں کونغمہ سنایا گیا کہ تیرے باقی ماندہ زندہ بچوں نے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے! دنیا بھر سے موصول ہونے والی تعزیت کے بارے میں بتایا گیا، ’’بڑی شخصیات‘‘ کی جانب سے صبر کا دامن تھامنے کا کہا گیا۔ مگر ماں کا دل ہے آج تک بے سکون ہے۔ اس ماں کو اور کچھ نہیں بس اپنے بچے کا ’’قاتل‘‘ چاہیے۔ ماں کو بس وہ ’’ذمہ دار‘‘ کٹہرے میں کھڑا چاہیے۔
لیکن اے ماں! میں معذرت خواہ ہوں، وہ اب ’’خاص مہمان‘‘ ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا!
قارئین، متاثرین میں سے ایک کا والد آج بھی در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ وہ پاگل ہے، ’’حساب‘‘ مانگ رہا ہے۔ کہہ رہا ہے ’’انصاف دو!‘‘ کیسا انصاف بھئی؟ ’’خدا‘‘ کی کرنی ہے ، اس میں بھلا ’’انسان‘‘ کیا کرسکتا ہے؟ اس سانحہ کی شدت دیکھئے،ذہنوں پر ان مٹ نقش چھوڑ چکا ہے۔ 16 دسمبر آتے ہی سب سے پہلے اک چیختی چلاتی ماں یاد آجاتی ہے، پھر وہ آڈیٹوریم، ننھی کلیاں، نقاب پوش، پھر اندھادھند فائرنگ، بچوں کا چھپنا، ڈرنا، خون میں لت پت معصوم ننھی کلیاں، والدین کا سکول کے باہر اِدھر اُدھر دیوانہ وار بھاگنا، اندر جانے کی منتیں کرنا، بچوں کی جانوں کی بھیک مانگنا، پھر تحقیقات کا مطالبہ کرنے والوں کو دھمکیاں ملنا۔ توبہ توبہ! ایک واقعہ ہونا تھا، ہوگیا۔ ’’تقدیر‘‘ کے فیصلوں کو بھلا کون ٹال سکتا ہے؟ اس وقت مَیں ایک سریلا گانا ’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ سن رہا ہوں۔ مَیں اس پر اداروں کا شکر گزار ہوں کہ اس نغمہ کو سن کر کم از کم ’’تسلی‘‘ تو مل جاتی ہے کہ کوئی تو ہمارے دکھ درد میں ہمارے ساتھ شریک ہے۔

…………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔