گوریلا جنگ کی جگہ افغان طالبان کی نئی حکمت عملی

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ زمینی جنگ میں افغان طالبان، افغان سیکورٹی فورسز اور نیٹو افواج کو نشانہ بنا کر نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن فضائی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے افغان طالبان کے لیے مکمل کنٹرول حاصل کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ فضائی حملوں کو روکنے کے لیے افغان طالبان کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں اور نہ اپنے کنٹرول شدہ علاقوں میں ان کے پاس ایسی کوئی فضائی امداد ہی ہے، جس کے بل بوتے پر وہ کابل سمیت اپنے کنٹرولڈ علاقوں کو فضائی حملوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ افغان طالبان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ زمینی جنگ کے لیے تو "گوریلا وار” کرسکتے ہیں اور مخالف فریق کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں، لیکن فضائی حوالہ سے وہ بہت کمزور ہیں۔ اس لیے افغان جنگ 17 برسوں بعد بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی۔ کیوں کہ اگر ایک جانب زمینی جنگ میں افغان طالبان کو برتری حاصل ہے، تو دوسری جانب فضائی حملوں میں افغان طالبان بالکل بے بس نظر آتے ہیں۔ انہیں فضائی جنگ کا کوئی تجربہ اور جدید اسلحہ میسر نہیں۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان اسی ایک نکتے نے جنگ کو اپنے آخری انجام تک پہنچنے سے روکے رکھا ہے۔ افغان طالبان جہاں مسلح مزاحمت کر رہے ہیں، تو دوسری جانب نفسیاتی طور پر بھی امریکہ کو زِچ کرکے اپنے مطالبات تسلیم کرانے اور انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 2001ء میں امریکہ کا یہی گمان تھا کہ فضائی حملوں کے بعد افغانستان پر باآسانی قبضہ کر لیا جائے گا، لیکن ان کا یہ خواب ابھی تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔ ایک ٹریلین ڈالرز افغان جنگ میں جھونکنے کے باوجود امریکہ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپریل 2019ء کے صدارتی انتخابات سے قبل ایک ایسا فارمولا معاہدے کی صورت میں طے پا جائے جس کی رو سے امریکہ افغانستان میں حسبِ منشا فوجی اڈوں میں قیام پذیر رہ کر ایران، روس اور چین پر نظر رکھ سکے، لیکن امریکی مقاصد کے حصول کی راہ میں افغان طالبان ایک بڑی رکاوٹ کی شکل میں حائل ہیں، جس پر امریکہ کو دنیا بھر میں سبکی کا سامنا ہے۔ صدر ٹرمپ کی عجلت میں دی گئی پالیسی کے سبب حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا اور افغانستان میں امن کی راہیں مسدود ہوئیں۔ امریکہ نے شمالی اتحاد کی جنگجو ملیشیا کے ساتھ اب مختلف گروپوں کو بھی افغان طالبان کے سامنے لا کھڑا کر دیا ہے۔ اگر پاکستان، امریکہ سے اپنا مکمل تعاون ختم کرتے ہوئے فضائی و زمینی حدود استعمال نہ کرنے دیتا، تو امریکہ افغانستان سے کئی برس قبل ہی انخلا کر جاتا، لیکن اب پاکستان عالمی قوانین کے تحت امریکہ کی جنگ کا باقاعدہ طور پر حصہ بن چکا ہے۔
امریکہ، پاکستان کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان مخالف ٹوئٹر بیانات اور بعض عہدے داروں کی اشتعال انگیز رپورٹس کی بنیادی وجہ پاکستان سے سوویت یونین کی طرز پر کردار ادا کرنے کی خواہش ہے، لیکن پاکستان ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانیوں اور 124 ارب ڈالرز کے نقصان کے باوجود امریکہ کا قابل اعتماد اتحادی نہیں رہا۔ کیوں کہ امریکہ کے ڈومور کے مطالبات کو پورا کرنے سے انکار کی بازگشت سے صدر ٹرمپ افغانستان میں جنگ کے خاتمے میں جیت کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لیے بے قرار ہے۔ ٹرمپ کا جارحانہ بیانیہ تبدیلی کا کوئی عندیہ نہیں دیتا بلکہ مسلسل غیر سفارتی آداب کے سبب پاکستان، امریکہ تعلقات سرد مہری کا سبب ضرور بن گئے ہیں۔
افغان طالبان نے گذشتہ 17 برس سے جاری اس جنگ میں مختلف جنگی حکمت عملیاں اپنائی ہیں جن کی روک تھام سے امریکہ بھی عاجز آگیا ہے، لیکن افغان طالبان کا اپنے ان گنت مزاحمت کاروں کو کابل انتظامیہ اور فورسز کی صفوں میں داخل کرنا ایک ایسی کامیاب حکمت عملی ہے جو نیٹو کی شکست میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ افغان طالبان نے اپنی بھرپور توجہ اب اسی جانب مبذول کر دی ہے کہ وہ اپنے زیادہ تر فدائین کو حکومت کی صفوں میں داخل کرائیں گے، بلکہ داخل کر بھی چکے ہیں۔ یہ حکمت عملی گوریلا جنگ سے زیادہ خطرناک اور کامیاب قرار دی جا رہی ہے۔ کیوں کہ اس سے نچلی سطح پر خوف وہراس زیادہ پھیلتا ہے اور عام عوام کا نقصان بھی کم ہوتا ہے۔ افغان طالبان کے مزاحمت کاروں کا حکومتی صفوں میں داخل ہونے والا ایک فدائی، انتظامیہ کو اتنی بھاری نقصان سے پہنچاتا ہے، جتنا آمنے سامنے جنگ میں سو افغان طالبان بھی نہیں پہنچا سکتے۔ افغان طالبان اس حکمت عملی کو کامیاب ترین تصور کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ "اصل مقصد نقصان کی زیادتی یا کمی نہیں بلکہ اہم بات دشمن کی صفوں میں ڈر اور خوف کا پھیلانا اور بے اعتمادی کی فضا پیدا کرنا ہے، جس کی بدولت دشمن اتنے بڑے فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔” صرف ایک افغان طالبان مزاحمت کار کا تنِ تنہا صوبہ کے اہم ترین اور محفوظ مقام گورنر ہاؤس میں نیٹو افواج کے سربراہ اور صوبہ کے بڑے رہنما، گورنر، ڈی آئی جی اور انٹیلی جنس کے سربراہ پر حملہ کرنا، افغان طالبان کے نزدیک ایک بڑی کامیابی اور کابل انتظامیہ کے لیے بڑے خوف اور ڈر کا باعث قرار پاتا ہے۔ جنگی اصول کے مطابق حملے میں بچ جانے والے بھی ہلاک تسلیم کیے جاتے ہیں، کیوں کہ حملے کی زد میں تو آہی گئے ہیں۔ اسی جنگی حکمت عملی کو افغان طالبان اہم قرار دے رہے ہیں۔ امریکہ اور افغان طالبان کے تواتر سے ہونے والے براہِ راست مذاکرات سے افغانستان میں قیام امن کے لیے مؤثر حکمت عملی نکلنے کے امکانات موجود ہیں۔ اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ صدارتی انتخابات سے قبل امریکہ ایک بار کوشش کرے کہ وہ اپنی افواج کے مکمل انخلا کی بجائے ایک ایسی حکومت سے من پسند معاہدہ کرے جس میں امریکہ کے افغانستان میں موجودگی کے جواز و کردار کو ضروری قرار دیا جائے۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعد نئی حکومت امریکہ کی منشا کے مطابق ہی آئے گی، جسے کٹھ پتلی حکومت کا درجہ حاصل ہوگا، لیکن امریکہ افغانستان کی اس بے معنی جنگ کے بھاری اخراجات سے باہر آنا چاہتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔