سہ ماہی ادبیات اسلام آباد کاخصوصی شمارہ ’’عبداللہ حسین نمبر‘‘ میرے ہاتھ میں ہے۔ اس کے سرورق پر عبداللہ حسین کی تصویر ہے۔ پڑھنے سے پہلے میں نے اس تصویر کو غور سے دیکھا، تو اس میں مجھے اپنائیت کی جھلک نظر آئی۔ جب میں نے ان کی سوانح عمری پڑھی، تو وہ اپنائیت پختون رشتے میں بدل گئی۔ ان کے والد ایکسائز انسپکٹر محمد اکبر خان بنوں خیبر پختونخوا کے رہنے والے تھے اور ملازمت کے سلسلے میں راولپنڈی میں رہ رہے تھے۔
عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ والد نے ان کا نام محمد خان رکھا تھا، لیکن اپنے ہی ناول ’’اُداس نسلیں‘‘ نے ان کا نام تبدیل کرکے عبداللہ حسین رکھا۔ اگر وہ یہ ناول نہ لکھتے، تو وہ ایک محدود حلقے میں ’’محمد خان‘‘ کے نام سے جانے پہچانے جاتے، لیکن اس ناول نے اُردو ادب کے افق پر ان کو درخشاں ستارے کی مانند چمکایا، بلکہ یہ کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ انہیں عالمی معیار کے ناول نگاروں کی صف میں لاکھڑا کر دیا۔
’’اُداس نسلیں‘‘ کا مسودہ مکمل کرنے کے عبداللہ حسین نے نئے ادارہ سے رابطہ کیا۔ انہیں اُمید تھی کہ اتنے ضخیم ناول کی اشاعت کی ذمہ داری یہی ادارہ لے سکتا تھا۔ ناول کے مسودے کو حنیف رامے، صلاح الدین محمود اور محمد سلیم الرحمان نے پڑھا۔ ان تینوں نے ناول بارے اچھی رائے دی، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بطورِ ادیب عبداللہ حسین کو کوئی جانتا نہ تھا۔ اس لیے ناول کی اشاعت سے پہلے یہ طے ہوا کہ بطورِ ادیب ان کا نام پہلے متعارف کرایا جائے۔
اس حوالہ سے عبداللہ حسین کہتے ہیں: ’’اگر محمد سلیم الرحمان اور حنیف رامے مجھے افسانہ لکھنے کا نہ کہتے، تو شاید میں ناول کے علاوہ کبھی کچھ نہ لکھ پاتا۔ کیوں کہ میرا خیال تھا کہ افسانہ میرا میدان نہیں۔ افسانہ نگار کا وژن اور طرح کا ہوتا ہے۔ مجھے کہا گیا کہ جب تک میری کچھ تحریریں نہیں چھپیں گی، میرا ناول نہیں چھاپا جاسکتا، تو میں نے ’’ندی‘‘ لکھی یہ میری پہلی کہانی تھی۔‘‘ عبداللہ حسین آگے کہتا ہے کہ میراناول ’’اُداس نسلیں‘‘ چھپنے کی نوبت آئی، تو مجھ سے کہا گیا کہ میرا نام کچھ گڑ بڑ پیدا کرسکتا ہے۔ اُسی زمانے میں کرنل محمد خان کی کتاب ’’بجنگ آمد‘‘ چھپی تھی، تو یہ خیال پیدا ہوا کہ محمد خان کے نام سے اگر ایک ناول مارکیٹ میں آتا ہے، تو کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ دونوں ذکر شدہ کتابیں یہ ایک ہی آدمی کی ہیں۔ بس یہی وجہ تھی نام تبدیل کرنے کی۔
عبداللہ حسین نام کی تبدیلی کا ایک اور سبب بھی بیان کرتے ہیں۔ ’’محمد خان ڈاکو‘‘ بھی اس دور میں مشہور تھا، تو اس لیے بھی ضروری معلوم ہوا کہ نام بدلا جائے۔
ناول ’’اداس نسلیں‘‘ جو 1963ء میں چھپا تھا، نے غیر معمولی شہرت عبداللہ حسین کو دی تھی۔ وہ پاکستان کے ادبی منظر نامہ سے سترہ سال کی غیر حاضری کے بعد 1981ء کو کہانیوں اور ناولٹوں کے مجموعے ’’نشیب‘‘ کے ساتھ دوبارہ منظرِ عام پر آئے۔ اب کی بار انہوں نے اردو کے قارئین کو ’’اداس نسلیں‘‘ سے بہت مختلف اور ایک نئی طرح کے اسلوب سے چونکا دیا، جیسے اپنی نثر میں ایک تجربے کی جوت جگائی۔ اس کتاب میں دو ناولٹ ’’نشیب‘‘ اور ’’واپسی کا سفر‘‘ اور پانچ کہانیاں ’’ندی‘‘، ’’سمندر‘‘، ’’جلا وطن‘‘، ’’دھوپ‘‘ اور ’’مہاجرین‘‘ ہیں۔ ان میں سے اولین چاروں کہانیاں پہلے سے طبع شدہ تھیں جب کہ آخری ذکر شدہ کہانی ’’مہاجرین‘‘ غیر مطبوعہ تھی۔
1982ء میں عبداللہ حسین کا معروف ناول ’’باگھ‘‘ شائع ہوا جس میں اُداس نسلیں کی نسبت ایک مختلف اور منفرد اسلوب کو بروئے کار لایا گیا تھا۔ ’’باگھ‘‘ کی اشاعت کے پانچ سال بعد اپریل 1988ء کو عبداللہ حسین کا تیسرا ناول ’’قید‘‘ منظر عام پر آیا۔ ان کا ایک ناولٹ ’’رات‘‘ بھی شائع ہوا۔ 1996ء میں ان کا ناول ’’نادار لوگ‘‘ زیورِ طبع سے آراستہ ہوا جسے ’’اداس نسلیں‘‘ ہی کی کڑی قرار دیا جاسکتا ہے۔
انگلستان میں قیام کے دوران میں ہی عبداللہ حسین نے اپنے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کو انگریزی میں خود ہی ترجمہ کیا۔ یہ "The weary ganerations” کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان کا ایک اور ناول "Emigre Journeys” کے عنوان سے بھی شائع ہوا، جسے ان کی طویل کہانی ’’واپسی کا سفر‘‘ کی توسیع مانا جاسکتا ہے۔
اس طرح فغانستان کی جنگ کے تناظر میں لکھا گیا ان کا ضخیم ناول "The Afghan Girl” ہنوز زیرِ طبع ہے۔ یہ ایک رومانوی کہانی پر مبنی ناول ہے۔
اپنی وفات تک عبداللہ حسین ’’نادار لوگ‘‘ کے دوسرے حصے اور اس ٹرائیولوجی کے تیسرے ناول پر کام کر رہے تھے جس کا نام انہوں نے ’’آزاد لوگ‘‘ تجویز کیا تھا۔ اس عنوان کے بارے میں ان سے استفسار کیا گیا، تو انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے بتایا: ’’یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جو ہر طرح کے قاعدے قانون سے آزاد ہوچکے ہیں۔ مادرپدر آزاد لوگ یعنی ایسی نسل جو ناقابلِ اصلاح ہے۔‘‘
عبداللہ حسین 5 جولائی 2015ء کو 83 برس کی عمرمیں کینسر کے مرض میں مبتلا ہوکر فوت ہوئے اور لاہور میں سپرد خاک ہوئے۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔